ایران کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ حالیہ امریکی فضائی حملوں سے شدید نقصان کے باوجود تہران اپنے جوہری پروگرام سے دستبردار نہیں ہوگا کیونکہ یورینیم کی افزودگی ہمارا قومی فخر ہے
وزیر خارجہ عباس اراغچی نے فاکس نیوز کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ فی الحال افزودگی روک دی گئی ہے کیونکہ نقصانات سنگین اور شدید ہیں ،لیکن ظاہر ہے کہ ہم افزودگی ترک نہیں کر سکتے کیونکہ یہ ہمارے اپنے سائنسدانوں کی کامیابی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ مستقبل کے کسی بھی جوہری معاہدے میں ایران کی افزودگی کا حق شامل ہونا چاہیے۔
اراغچی کا یہ بیان 22 جون کو ایران کے ساتھ اسرائیل کی 12 روزہ جنگ کے جواب میں زیر زمین فوردو سائٹ سمیت ایران میں تین جوہری تنصیبات پر امریکی فضائی حملوں کے چند ہفتوں بعد سامنے آیا ہے۔
اراغچی نے اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے کہ تنصیبات کو "شدید طور پر تباہ" کر دیا گیا تھا، البتہ یہ اصرار کیا کہ ایران کی جوہری مہارت برقرار ہے،ٹیکنالوجی موجود ہے، ہمارا جوہری پروگرام، ہمارا افزودگی کا پروگرام، باہر سے درآمد کیا گیا کوئی ایسا پروگرام نہیں ہے جسے بمباری سے تباہ کیا جا سکے۔
ضرورت پڑنے پر مزید حملے'
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنے ٹروتھ سوشل پلیٹ فارم پر اراغچی کے تبصرے کا جواب دیتے ہوئے لکھا کہ جیسا کہ میں نے کہا تھا ، اگر ضرورت پڑی تو ہم دوبارہ ایسا کریں گے!"
اس کے بعد ایک پوسٹ میں ٹرمپ نے سی این این کو انٹلیجنس تخمینوں کا حوالہ دینے پر تنقید کا نشانہ بنایا جس میں مبینہ طور پر کہا گیا تھا کہ ان حملوں سے ایران کے جوہری پروگرام میں صرف چند ماہ کی تاخیر ہوئی ہے۔
عراقچی نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ ایران کا جوہری توانائی کا ادارہ اب بھی جوہری مواد اور تنصیبات کو پہنچنے والے نقصان کا جائزہ لے رہا ہے۔
انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ افزودہ یورینیم کو محفوظ کیا گیا ہے یا نہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس ناکامی کے باوجود ایران مذاکرات کے لیے تیار ہے لیکن اس وقت امریکہ کے ساتھ براہ راست مذاکرات نہیں کرے گا۔
انہوں نے امریکی پابندیوں کے خاتمے کے بدلے میں کہا، "ہم ایران کے جوہری پروگرام کو پرامن ثابت کرنے کے لئے اعتماد سازی کا کوئی بھی اقدام کرنے کے لئے تیار ہیں۔
انہوں نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ ایران میزائلوں کی تیاری اور تیاری جاری رکھے گا۔
انہوں نے حالیہ تنازع کے دوران ایران کے میزائل انفراسٹرکچر پر اسرائیلی حملوں کے باوجود کہا، "ہمارے پاس اب بھی اپنے دفاع کے لیے اچھی تعداد میں میزائل موجود ہیں۔
ایران اور ای تھری یعنی جرمنی، فرانس اور برطانیہ کے درمیان نئے جوہری مذاکرات جمعے کے روز استنبول میں ہوں گے۔
اس سے قبل امریکہ اور ایران کے درمیان بالواسطہ مذاکرات عمانی ثالثوں کے ذریعے ہوتے رہے تھے جب تک کہ اسرائیل نے 13 جون کو بلا اشتعال حملہ نہیں کیا۔ امریکہ نے چند دن بعد ایران کی جوہری تنصیبات پر اپنے حملوں کے ساتھ اس تنازع میں شمولیت اختیار کی