ترکیہ
6 منٹ پڑھنے
ترکیہ ایک ایسے علاقے کا تصور کرتا ہے جو تنازعات کے بجائے مصالحت سے متعرف ہو — ایردوان
ترک صدر نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پر اپنی طویل مدتی تنقید کو دہرایا، اور اپنے مخصوص جملے "دنیا پانچ سے بڑی ہے" کو دہرایا، جو کونسل کے پانچ مستقل اراکین کی طرف اشارہ ہے۔
ترکیہ ایک ایسے علاقے کا تصور کرتا ہے جو تنازعات کے بجائے مصالحت سے متعرف ہو — ایردوان
Erdogan at Antalya Diplomacy Forum / AA
12 اپریل 2025

صدر رجب طیب اردوان نے بین الاقوامی انصاف، علاقائی مفاہمت اور ایک زیادہ جامع عالمی نظام کی ضرورت کی  بھر پور   اپیل کی ۔ انہوں نے اپنی تقریر میں ترکیہ کی سفارتی پوزیشن کو اجاگر کیا اور انسانی بحرانوں کے حوالے سے مغربی خاموشی پر سخت تنقید کی۔

چوتھے انطالیہ ڈپلومیسی فورم  سے خطاب کرتے ہوئے ایردوان نے تنازع کے بجائے مکالمے اور جغرافیائی سیاست کے بجائے اخلاقی وضاحت کی اہمیت پر زور دیا۔

انہوں نے کہا، “ہم ایک بار پھر اعلان کرتے ہیں کہ ہم تنازع کے بجائے مکالمے کو ترجیح دیتے ہیں، اور تقسیم کے بجائے مشترکہ سوچ اور عالمی ضمیر کو اہمیت دیتے ہیں۔

'ایک منقسم دنیا میں سفارتکاری کی بحالی'  کے موضوع پر منعقدہ  فورم  میں عالمی رہنما، سفارتکاراور پالیسی ماہرین  شرکت کر رہے ہیں۔

ایردوان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پر اپنی دیرینہ تنقید کو دہرایا اور اپنے مشہور جملے “دنیا پانچ سے بڑی ہے” کا حوالہ دیا، جو کونسل کے پانچ مستقل ارکان کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

انہوں نے کہا، عالمی حکمرانی کا موجودہ ڈھانچہ اپنے مقصد کے لیے موزوں نہیں رہا اور جدید دنیا کی امنگوں یا آبادیاتی حقائق کی عکاسی نہیں کرتا، “کیونکہ انسانیت پانچ سے بڑی ہے"۔

باور رہے کہ ترکیہ طویل عرصے سے ایک زیادہ منصفانہ بین الاقوامی نظام کی وکالت کرتا رہا ہے، جہاں ترقی پذیر ممالک کو زیادہ مضبوط آواز ملے۔

خطے کے لیے پیغام: ترکیہ ہمیشہ تعاون کرنے کے لیے تیار رہے گا۔

ترک  صدر نے، صدیوں پرانے تاریخی تعلقات اور قومی شناخت کا حوالہ دیتے ہوئے خطے میں ترکیہ کی موجودگی اور قیادت کے حوالے سے ایک مضبوط  پیغام دیا ۔

انہوں نے کہا، "ہم صرف اس جغرافیہ کے باشندے نہیں ہیں؛ ہم اس کے جائز مالک بھی ہیں۔ ہم یہاں ایک ہزار سال سے ہیں، اور ان شاء اللہ، ہم آئندہ کئی صدیوں تک یہاں رہیں گے۔"

صدرایردوان کے یہ بیانات ایک ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب خطے میں تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں، اور ترکی اپنی خارجہ پالیسی کو از سر نو  ترتیب دے رہا ہے ، معمول کے تعلقات قائم کر رہا ہے، اپنے اقتصادی اثر و رسوخ کو بڑھا رہا ہے، اور جنوبی قفقاز، بلقان، اور مشرق وسطیٰ میں اپنی سفارتی نیٹ ورک کو مضبوط کر رہا ہے۔

امریکہ کے ساتھ اسٹریٹجک تعلقات کی بحالی

بین الاقوامی تعلقات کے حوالے سے ایک اہم موڑ پر، ایردوان نے امریکہ کے ساتھ ترکی کے مستقبل کے تعلقات پر بھی بات کی — اور اسے اقتصادی اور ذاتی دونوں پہلوؤں سے جوڑا۔

انہوں نے کہا، "مجھے یقین ہے کہ صدر ٹرمپ کی دوسری مدت میں، ہماری قریبی دوستی کے تعاون سے، امریکہ کے ساتھ ہمارے تعلقات ہر شعبے میں فروغ پائیں گے۔"

انہوں نے واشنگٹن کے ساتھ اقتصادی تعلقات کو مضبوط کرنے کے لیے ترکیہ کے عزم کا اعادہ کیا، اور 100 ارب ڈالر کے دو طرفہ تجارتی ہدف پر زور دیا۔

انہوں نے کہا، "ہم اپنے اتحادی اور اسٹریٹجک شراکت دار، امریکہ کے ساتھ 100 ارب ڈالر کے تجارتی ہدف کو بڑی  اہمیت دیتے ہیں۔"

محصولات اور تحفظ پسندی پر جاری عالمی کشیدگی کا حوالہ دیتے ہوئے، ایردوان نے ترکیہ کے عملی نقطہ نظر کا اشارہ دیا۔

انہوں نے مزید کہا، "ہم پوری کوشش کر رہے ہیں کہ محصولات پر بڑھتی ہوئی تجارتی مسابقت تباہ کن نہ بنے؛ ترکی اس عمل کے فاتحین میں شامل ہوگا۔"

یورپی یونین کے ساتھ تعلقات

ایردوان نے ترکی کی یورپی یونین میں طویل عرصے سے زیر التوا شمولیت کے لیے اپیل کی، اور دعوی کیا کہ جغرافیائی سیاسی حقائق اور مشترکہ مفادات اس عمل کو سنجیدگی سے بحال کرنے کا تقاضا کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا، "ترکی ہکو فوری طور پر یورپی یونین کا مکمل رکن بننا چاہیے۔ ہم اس عمل کو آگے بڑھانے کے لیے تیار اور پرعزم ہیں اور یورپی یونین سے ٹھوس اقدامات کی توقع رکھتے ہیں۔"

جناب ایردوان نے براعظم کی سلامتی کے ڈھانچے میں انقرہ کے بڑھتے ہوئے کردار کو بھی اجاگر کیا، موجودہ تنازعات اور اسٹریٹجک کمزوریوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے۔

انہوں نے مزید کہا، "یہ ایک بار پھر واضح ہو گیا کہ یورپی سلامتی کابلا  ترکیہ تصور نہیں کیا جا سکتا، ہم  مستقبل میں بھی ذمہ داری اٹھانے  کے لیے تیار ہیں۔"

شام پر مکالمہ، لیکن غلط فہمی کی گنجائش نہیں

ایردوان نے شام کی  پیش رفت کو خطے میں دیرپا استحکام کے لیے ایک اہم موقع قرار دیتے ہوئے  تمام فریقوں پر زور دیا کہ وہ اس موقع کو ضائع نہ کریں ۔

انہوں نے کہا، "8 دسمبر کے انقلاب کے ساتھ، ہم نہ صرف شام بلکہ پورے خطے میں دیرپا استحکام قائم کرنے کے موقع کو ضائع نہیں ہونے دے سکتے۔"

سفارتکاری کے کردار پر زور دیتے ہوئے، ایردوان نے انقرہ کے تحمل کو غلط سمجھنے کے خلاف خبردار  بھی کیا۔

انہوں نے کہا، "کسی کو ہمارے مسائل کو مکالمے کے ذریعے حل کرنے کے نقطہ نظر کو غلط فہمی میں نہیں لینا چاہیے؛ ہمارا تحمل کسی کو غلط خواہشات کی طرف نہ لے جائے۔"

انہوں نے مزید کہا کہ ترکیہ شام کی وحدت اور خودمختاری کو برقرار رکھنے کے لیے کلیدی علاقائی طاقتوں کے ساتھ قریبی رابطے میں ہے۔شام کی علاقائی سالمیت کو برقرار رکھنے میں، ہم خطے کے بااثر اداکاروں، بشمول ٹرمپ اور پوٹن، کے ساتھ اتحاد  اور قریبی رابطے میں ہیں۔"

اسرائیلی اقدامات کی مذمت، بین الاقوامی خاموشی پر تنقید

اپنے سخت ترین بیانات میں، ایردوان نے غزہ میں اسرائیل کی جاری فوجی کارروائی کی مذمت کی، اسے قتل عام قرار دیا اور خبردار کیا کہ بین الاقوامی برادری کی خاموشی اس جرم میں شراکت داری کے مترادف ہے۔

انہوں نے مزید کہا، "جب تک غزہ میں اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی جاری رہے گی، جنگ بندی کی کوششیں ناکام ہوں گی، اور معصوموں پر بمباری ہوتی رہے گی، دیرپا امن کا حصول بہت  مشکل ہوگا۔"

ترکیہ غزہ میں اسرائیل کے اقدامات کا ایک بلند آواز ناقد رہا ہے، بار بار جنگ بندی، انسانی امداد کی رسائی، اور شہری ہلاکتوں کے لیے جوابدہی کا مطالبہ کرتا رہا ہے۔

امن و خوشحالی کانقطہ نظر

ایردوان نے امن، ترقی، اور مشترکہ خوشحالی پر مبنی ایک مستقبل کی علاقائی وژن کا خاکہ پیش کیا۔ انہوں نے کہا، "ہم ایک ایسا خطہ دیکھنا چاہتے ہیں جہاں مصالحت ، جھڑپوں  پرغالب ہو، اور خوشحالی خونریزی، آنسو، درد، اور کشیدگی کے بجائے راج کرے۔"

انہوں نے کہا کہ ترکیہ کی خارجہ پالیسی کا مقصد نہ صرف موجودہ نسلوں کے لیے بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی ایک پر امن دنیا کو قائم کرنا ہے۔

ترکیہ کا بڑھتا ہوا سفارتی وجود

انطالیہ ڈپلومیسی فورم ترکیہ کی عالمی شمولیت اور نرم طاقت کے لیے ایک اہم پلیٹ فارم بن چکا ہے، جو براعظموں کے رہنماؤں اور سفارتکاروں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔

امسال کا فورم ، یوکرین میں جنگ، مشرق وسطیٰ میں کشیدگی، اور کثیر الجہتی اداروں پر اعتماد کے خاتمے جیسے عالمی عدم استحکام کے عروج کے  ماحول میں  منعقد ہوا ۔

ایردوان کی تقریر موجودہ عالمی نظام کے حوالے سے ترکیہ کی مایوسی اور ایک نئے نظام  جو  ان کے بقول  انصاف، شمولیت، اور امن کو طاقت کی سیاست پر ترجیح دیتا ہے، کی عکاس تھی۔

دریافت کیجیے
لوور میوزیم میں تاریخی تزئین و آرائش: "مونا لیزا" کے لئے خصوصی کمرہ
قیدیوں کی زبانی،الاباما جیل کہانی
ہاتشیپسوت کے تاریخی نوادرات
چار سو سال پرانا آشوری بازار
محبت کیا ہے؟
ترک فنکار، زنزیبار کی سمندری معیشت کو فنون کے ذریعے جانبرکر رہے ہیں
داتچہ میں عہدِ عثمانیہ کا غرق شدہ  بحری جہاز  17ویں صدی کی بحری تاریخ پر روشنی ڈال رہاہے
عہدِ عثمانیہ میں رمضان اور حضوری   دروس
ترک ڈرامے دنیا میں ترکیہ کے چہرے کو بدل رہے ہیں
آزادی فلسطین کی حامی وکیل عائشہ نور
ڈنمارک  کا آرکٹک سمندر  میں اپنے وجود  کو مضبوطی دلانے کے لیے 2 بلین ڈالر کی فوجی امداد کا اعلان
بنگلہ دیش کی طرف سے  ہندوستانی سیاست دان کی طرف سے اقوام متحدہ کے امن مشن کے مطالبے کی مذمت
ہیضے نے سوڈان کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے تو جاری جھڑپوں کے دوران 1200 سے زیادہ افراد ہلاک ہو گئے
یوکرین نے مغرب سے جوہری ہتھیار حاصل کیے تو روس 'تمام ہتھیار' استعمال کرے گا: پوتن
آئی سی سی چیف:جنگی جرائم کی عدالت خطرے میں ہے
TRT گلوبل چیک کریں۔ اپنی رائے کا اشتراک کریں!
Contact us