ایرانی جوہری تنصیبات، فوجی مراکز اور حکام کے گھروں کو نشانہ بنائے جانے کے بعد عرب ممالک نے خطے میں کشیدگی کو کم کرنے کے لیے سفارتی کوششیں تیز کر دی ہیں۔
سعودی عرب، قطر، مصر، اردن، کویت، عراق اور فلسطین نے جمعہ کے روز خبردار کیا کہ اسرائیل کی جانب سے ایران پر حملوں کے بعد خطے میں بڑے پیمانے پر جنگ چھڑ سکتی ہے۔ ان حملوں کے جواب میں تہران کے جوابی حملوں میں ایک اسرائیلی ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے۔
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے اس صورتحال پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے بات چیت کی۔
سعودی وزیر خارجہ نے اپنے ایرانی ہم منصب سے بھی گفتگو کی اور اسرائیلی حملوں کو خطے میں سفارتی کوششوں کے لیے ایک دھچکا قرار دیا۔
قطر کے وزیر خارجہ نے گہری تشویش کا اظہار کیا اور مزید کشیدگی کو روکنے کے لیے شراکت داروں کے ساتھ کام کرنے کا عزم ظاہر کیا۔
متحدہ عرب امارات، عمان، مصر، اردن، کویت اور عراق نے بھی اسی طرح کے بیانات جاری کیے اور تمام فریقین پر زور دیا کہ وہ قومی خودمختاری کا احترام کریں اور سفارتی حل تلاش کریں۔
اردن کے وزیر خارجہ نے خبردار کیا کہ ان کا ملک فضائی حدود کی خلاف ورزی برداشت نہیں کرے گا۔
عراق نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں باضابطہ شکایت درج کرائی اور اسرائیل کی جانب سے عراقی فضائی حدود کے استعمال پر جوابدہی کا مطالبہ کیا۔
فلسطینی حکام نے بھی خطے میں تعاون پر زور دیا تاکہ صورتحال کو وسیع جنگ میں تبدیل ہونے سے روکا جا سکے۔
اسرائیل نے جمعہ کی صبح ایران پر حملے شروع کیے، جن میں ایران کی جوہری، فوجی اور شہری تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا، اور اس کے اعلیٰ فوجی کمانڈرز اور سائنسدانوں کو ہلاک کیا گیا۔
یہ حملے جمعہ کی رات تک جاری رہے، جن میں تہران، نطنز، تبریز اور اصفہان جیسے شہروں کو نشانہ بنایا گیا۔
ایران نے جمعہ کی رات "آپریشن ٹرو پرامس III" کے نام سے جوابی حملہ کیا، جس میں تل ابیب سمیت کئی علاقوں کو نشانہ بنایا گیا۔ ایرانی میزائلوں نے کیریا کمپاؤنڈ کو بھی نشانہ بنایا، جو اسرائیلی فوج کے مرکزی کمانڈ اور وزارت دفاع کا مرکز ہے اور جسے اکثر اسرائیل کا "پینٹاگون" کہا جاتا ہے۔