امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درجنوں معیشتوں، بشمول یورپی یونین اور جاپان، پر سخت محصولات دوبارہ نافذ کرنے سے ایک ہفتہ قبل، کئی ممالک اب بھی بدترین اثرات سے بچنے کے لیے معاہدے کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ٹرمپ نے زیادہ تر شراکت داروں پر 10 فیصد محصول عائد کیا ہے، جبکہ ان ممالک کے لیے زیادہ اور مخصوص شرحیں مقرر کی گئی ہیں جن کے ساتھ امریکہ کا بڑا تجارتی خسارہ ہے۔
تاہم، بعد میں ان محصولات کو جولائی تک التوا میں ڈال دیا گیا تاکہ مذاکرات کے لیےمہلت حاصل کی جا سکے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ مذکورہ ممالک کو تین ممکنہ نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے: وہ معاہدے کے لیے کسی فریم ورک تک پہنچ سکتے ہیں؛ زیادہ محصولات پر مزید توقف حاصل کر سکتے ہیں؛ یا محصولات میں اضافہ دیکھ سکتے ہیں۔
وزیر خزانہ اسکاٹ بیسنٹ نے گزشتہ جمعہ کو CNBC پر کہا تھا کہ ، "ایسے معاہدوں کا ایک گروپ ہوگا جو ہم 9 جولائی سے پہلے مکمل کریں گے۔"
پالیسی سازوں نے ان ممالک کے نام نہیں بتائے ، لیکن بیسنٹ کا کہنا ہے کہ واشنگٹن تقریباً 18 اہم شراکت داروں کے ساتھ معاہدے کرنے پر توجہ مرکوز کر رہا ہے۔
ایشیا سوسائٹی پالیسی انسٹی ٹیوٹ (ASPI) کی نائب صدر وینڈی کٹلر نے AFP کو بتایا کہ "ویتنام، بھارت اور تائیوان ممکنہ معاہدے کے مضبوط امیدوار ہیں۔"
معاہدہ نہ ہونے کی صورت میں ویتنام کا "جوابی محصول" 10 فیصد کی بنیادی شرح سے بڑھ کر 46 فیصد ہو جائے گا، بھارت کا 26 فیصد اور تائیوان کا 32 فیصد۔
اٹلانٹک کونسل کے بین الاقوامی اقتصادیات کے چیئر جوش لپسکی نے بھارتی مذاکرات کاروں کے حالیہ امریکی دورے میں توسیع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ "یہ ایک مضبوط امیدوار لگتا ہے۔"
لپسکی نے پیر کو ٹرمپ کی جاپان پر تنقید کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، "جاپان بھی اس زمرے میں تھا، لیکن بعض امور پر پس قدمی ہوئی ہے" ۔
تاہم، ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ معاہدے مکمل تجارتی معاہدے ہونے کا امکان نہیں رکھتے، کیونکہ ایسے معاہدوں پر بات چیت کرنا پیچیدہ ہوتا ہے۔
واشنگٹن نے صرف برطانیہ کے ساتھ ایک معاہدے اور چین کے ساتھ عارضی طور پر جوابی محصولات کو کم کرنے کے معاہدے کا اعلان کیا ہے۔
بیسنٹ نے یہ بھی کہا کہ جو ممالک "نیک نیتی سے مذاکرات کر رہے ہیں" ان کے محصولات 10 فیصد کی بنیادی شرح پر رہ سکتے ہیں۔لیکن زیادہ شرحوں پر توقف کی توسیع کا انحصار ٹرمپ پر ہوگا۔
ASPIکی کٹلر نے کہا، " نئی حکومت کے ساتھ، جنوبی کوریا توسیع حاصل کرنے کے لیے اچھی پوزیشن میں دکھ رہا ہے۔"
لپسکی کو توقع ہے کہ کئی ممالک اس زمرے میں آئیں گے، زیادہ محصولات پر ایک توسیعی توقف حاصل کریں گے جو لیبر ڈے (یکم ستمبر) تک جاری رہ سکتا ہے۔
بیسنٹ نے پہلے کہا تھا کہ واشنگٹن لیبر ڈے تک تجارتی معاہدوں کے لیے اپنا ایجنڈا مکمل کر سکتا ہے، جو اس بات کا اشارہ ہے کہ مزید معاہدے مکمل ہو سکتے ہیں، لیکن بات چیت ممکنہ طور پر جولائی کے بعد بھی جاری رہے گی۔
تاہم، ، بیسنٹ نے خبردار کیا ہے کہ امریکہ کی طرف سے "ضدی" قرار دیے جانے والے ممالک کےمحصولات ٹرمپ کے پہلے اعلان کردہ بلند سطح تک واپس جا سکتے ہیں ۔
یہ شرحیں 11 فیصد سے 50 فیصد تک ہیں
کٹلر نے خبردار کیا کہ "جاپان کا چاول کی مارکیٹ کھولنے سے انکار، اور امریکی آٹوموٹوبائل محصولات کو کم کرنے کی مزاحمت، جاپان کے 24 فیصد جوابی محصول کی دوبارہ نفاذ کا باعث بن سکتی ہے۔"
خود ٹرمپ نے منگل کو کہا کہ جاپان کے ساتھ تجارتی معاہدہ ممکن نہیں دکھتا ، اس ملک کو "30 فیصد، 35 فیصد، یا جو بھی نمبر ہم طے کریں گے" محصول ادا کرنا پڑ سکتا ہے۔
لپسکی کا ماننا ہے کہ یورپی یونین کو بھی زیادہ سطحوں پر محصولات کے دوبارہ نفاذ کا خطرہ ہے — اپریل میں اعلان کردہ 20 فیصد یا وہ 50 فیصد جو ٹرمپ نے حال ہی میں دھمکی دی تھی۔
ایک تنازعہ کا علاقہ یورپ کا ڈیجیٹل ریگولیشن کے لیے نقطہ نظر ہو سکتا ہے۔
ٹرمپ نے حال ہی میں کہا کہ وہ کینیڈا کے ساتھ تجارتی بات چیت ختم کر دیں گے — جو 9 جولائی کی ڈیڈ لائن سے متاثر نہیں ہے — ملک کے ڈیجیٹل سروسز ٹیکس کے بدلے میں، جسے اوٹاوا نے بالآخر واپس لینے کا کہا۔
اس ہفتے، یورپی یونین کے تجارتی سربراہ ماروس سیفکووچ واشنگٹن میں ہیں تاکہ تجارتی معاہدے کو حتمی شکل دی جا سکے، جبکہ یورپی یونین کمیشن نے تجاویز کے ابتدائی مسودے حاصل کیے ہیں جن پر حکام کام کر رہے ہیں۔