اتوار کی صبح کے ابتدائی گھنٹوں میں، ایرانی میزائلوں نے نہ صرف اسرائیلی علاقے میں بلکہ اس کے سائنسی فخر کے مرکز تک وسیع پیمانے کا حملہ کیا۔
وائزمین انسٹیٹیوٹ آف سائنس، جو زندگی کے علوم، فزکس اور کیمسٹری میں دہائیوں کے کام کے ساتھ عالمی شہرت یافتہ تحقیقی مرکز ہے، ایک براہ راست حملے میں شدید نقصان کا شکار ہوا جسے اسرائیلی حکام اور سائنسدان ایک حکمت عملی اور علامتی دھچکا قرار دے رہے ہیں۔
پروفیسر اورن شولڈینر، جو اپنی 16 سالہ پرانی لیبارٹری کے ملبے کے قریب کھڑے تھے، نے کہا: "انہوں نے اسرائیل کے سائنسی جواہر کو نقصان پہنچایا۔ یہ ان کے لیے ایک اخلاقی فتح ہے۔"
اس حملے میں کوئی ہلاک نہیں ہوا، لیکن اثرات تباہ کن تھے۔ دو عمارتیں براہ راست متاثر ہوئیں — ایک لیب فعال تحی، جبکہ دوسری ابھی زیر تعمیر تھی۔ کم از کم ایک درجن دیگر عمارتیں بھی متاثر ہوئیں، جن کی کھڑکیاں ٹوٹ گئیں، اسٹیل مڑ گیا، اور جدید تحقیقی ماحول جلے ہوئے ڈھانچے بن گیا ۔
پروفیسر سارل فلیش مین نے کہا: "یہ بہت سے لوگوں کی زندگی کا کام تھا۔ کچھ لیبارٹریاں مکمل طور پر تباہ ہو گئیں۔ در حقیقت کچھ بھی باقی نہیں بچا۔"
ایران نے حکمت عملی بدل دی
سالوں سے، اسرائیل نے ایرانی جوہری سائنسدانوں کو خفیہ قتل کے ذریعے نشانہ بنایا ہے تاکہ تہران کے جوہری پروگرام کو تاخیر یا ناکام بنایا جا سکے۔ تازہ ترین حملے کے ساتھ، ایران نے اب اسرائیل کے سائنسی ماہرین کو نشانہ بنانے کے لیے تیار ہونے کا مظاہرہ کیا ہے۔
وائزمین انسٹیٹیوٹ، جو 1934 میں قائم ہوا اور اسرائیل کے پہلے صدر کے نام پر رکھا گیا، اکثر دنیا کے بہترین تحقیقی مراکز میں شمار ہوتا ہے۔ اس نے بشمول دفاعی فرم ایل بٹ سسٹمز سمیت اسرائیل کا پہلا کمپیوٹر بنایا اور اسرائیل کی دفاعی صنعت کے ساتھ تعلقات رکھتا ہے ۔
تجزیہ کار یوئیل گوزانسکی نے کہا کہ یہ تعلق اس کے ہدف کے طور پر منتخب ہونے میں کردار ادا کر سکتا ہے۔ انہوں نے کہا: "یہ ادارہ اسرائیلی سائنسی ترقی کی علامت ہے۔ اور ایران یہ پیغام دے رہا ہے: 'آپ ہمارے سائنسدانوں کو نشانہ بناتے ہیں، ہم آپ کے سائنسدانوں کو نشانہ بنائیں گے۔'"
یہ پہلا موقع نہیں ہے جب ایران نے مبینہ طور پر وائزمین سے وابستہ سائنسدانوں کو نشانہ بنانے کی کوشش کی ہو۔ 2023 میں، اسرائیلی حکام نے ایک ایرانی منصوبے کو ناکام بنایا جس میں کیمپس میں رہنے والے ایک جوہری سائنسدان کو ٹریک اور قتل کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ مشرقی یروشلم کے مقبوضہ علاقے سے کئی فلسطینی مشتبہ افراد کو اس منصوبے پر عمل درآمد سے پہلے گرفتار کیا گیا۔
تاہم، موجودہ حملہ ان منصوبوں سے کہیں آگے بڑھ گیا۔ شولڈینر کی آواز کانپ رہی تھی جب انہیں ملبے کے درمیان سے گزرنے کا احساس ہوا: "بچانے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ کوئی نشان نہیں۔ ہماری تمام تحقیقات رک گئی ہیں۔ دوبارہ تعمیر کرنے میں برسوں لگیں گے۔"
کیمپس ابھی تک بند ہے، اور سائنسدان اس بات کا اندازہ لگانے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں کہ وہ کب یا کیسے اپنا کام دوبارہ شروع کر سکتے ہیں۔ تباہی سے آگے، باہمی حملے تنازعے میں ایک اہم موڑ کی نشاندہی کرتے ہیں — میدان جنگ میں صرف میزائل ہی نہیں بلکہ ذہن بھی شامل ہو گئے ہیں۔
شولڈینر نے کہا: "یہ سائنسی تخلیق کے لیے بہت بڑا نقصان ہے ۔"