ایران اور امریکہ تہران کے تیزی سے آگے بڑھنے والے جوہری پروگرام پر مذاکرات کے پانچویں دور کے لیے بروز جمعہ روم میں ملاقات کریں گے، ایران میں یورینیم کی افزودگی ایک اہم مسئلہ بن کر سامنے آئی ہے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ سمیت امریکی حکام اس بات پر مصر ہیں کہ ایران کسی بھی معاہدے میں یورینیم افزودگی جاری نہیں رکھ سکتا، جس کے بدلے تہران کی مشکلات سے نبرد آزما معیشت پر عائد پابندیاں ہٹائی جا سکتی ہیں۔ ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے جمعہ کی صبح اپنے بیان میں کہا ہے کہ اگر افزودگی ختم کی گئی تو “ہمارے پاس کوئی معاہدہ نہیں ہوگا۔”
عراقچی نے سوشل پلیٹ فارم ایکس پر لکھا ہے کہ “معاہدے کا راستہ تلاش کرنا کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے۔ فیصلہ کرنے کا وقت آ گیا ہے۔”
امریکہ کی جانب سے مذاکرات میں مشرق وسطیٰ کے ایلچی اسٹیو وتکوف اور اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے پالیسی پلاننگ ڈائریکٹر مائیکل اینٹن نمائندگی کریں گے۔
اگرچہ حکام نے مذاکرات کے مقام کا اعلان نہیں کیا، لیکن اس سے پیشتر اطالوی دارالحکومت میں عمان کے سفارت خانے میں یہ بات چیت سر انجام پائی تھی۔
عمان کے وزیر خارجہ بدر البوسعیدی ان مذاکرات میں ثالثی کر رہے ہیں، کیونکہ عرب جزیرہ نما کی یہ قوم تہران اور واشنگٹن دونوں کے لیے ایک قابل اعتماد ثالث رہی ہے۔
یورینیم کی افزودگی مذاکرات میں ایک اہم مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ ان مذاکرات کا مقصد ایران کے جوہری پروگرام کو محدود کرنا ہے، جس کے بدلے میں امریکہ کی جانب سے ایران پر عائد سخت اقتصادی پابندیاں ہٹائی جا سکیں، جو تقریباً نصف صدی کی دشمنی کا نتیجہ ہیں۔
ٹرمپ نے بارہا دھمکی دی ہے کہ اگر معاہدہ نہ ہوا تو وہ ایران کے پروگرام کو نشانہ بنانے کے لیے فضائی حملے کریں گے۔ جس پر ایرانی حکام نے خبردار کیا ہے کہ وہ اپنے یورینیم کے ذخیرے کو ہتھیاروں کے درجے تک افزودہ کر کے جوہری ہتھیار حاصل کر سکتے ہیں۔
خصوصی اقدامات
افزودگی مذاکرات میں سب سے بڑا تنازعہ بنی ہوئی ہے۔ وٹکوف نے ایک موقع پر تجویز دی کہ ایران 3.67 فیصد تک یورینیم افزودہ کر سکتا ہے، لیکن بعد میں کہا کہ ایران کی تمام افزودگی بند ہونی چاہیے۔ یعنی امریکی موقف وقت کے ساتھ سخت ہوتا گیا ہے۔
جب مذاکرات کے بارے میں پوچھا گیا تو اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی ترجمان ٹیمی بروس کا کہنا ہے کہ"ہمیں یقین ہے کہ واشنگٹن کے افزودگی کے خاتمے کے مطالبے سمیت ہم مذاکرات میں کامیاب ہوں گے ۔"
بروس نے جمعرات کو کہا،"ایرانی حکام مذاکرات کر رہے ہیں، اس لیے وہ بھی ہمارے موقف کو سمجھتے ہیں اور وہ مذاکرات جاری رکھے ہوئے ہیں۔"
ایک تجویز یہ دی گئی ہے کہ ایران ملک میں افزودگی بند کر دے لیکن مشرق وسطیٰ میں ایک کنسورشیم کے ذریعے یورینیم کی فراہمی جاری رکھے، جسے علاقائی ممالک اور امریکہ کی حمایت حاصل ہو۔
تاہم، ایران کی وزارت خارجہ نے اصرار کیا ہے کہ افزودگی ملک کی سرحدوں کے اندر جاری رہنی چاہیے اور 2010 میں ایک مشابہہ ایندھن کے تبادلے کی تجویز مذاکرات میں کامیاب نہیں ہو سکی تھی۔
دریں اثنا، اسرائیل نے دھمکی دی ہے کہ اگر اسے خطرہ محسوس ہوا تو وہ ایران کی جوہری تنصیبات پر خود حملہ کرے گا، جس سے مشرق وسطیٰ میں پہلے سے موجود کشیدگی مزید پیچیدہ ہو گئی ہے، جو پہلے ہی غزہ میں اسرائیل کی جنگ سے بڑھ چکی ہے۔
عراقچی نے جمعرات کو خبردار کیا کہ اگر اسرائیل نے ان کی جوہری تنصیبات کوخطرے سے دو چار کیا توایران “خصوصی اقدامات” کرے گا، اور ساتھ ہی امریکہ کو بھی خبردار کیا کہ وہ کسی بھی اسرائیلی حملے میں شریک سمجھا جائے گا۔