سمتھسونین انسٹی ٹیوشن تقریباً دو صدیوں سے امریکی تاریخ، فن، ثقافت اور سائنسی علوم کا ایک عظیم ذخیرہ رہا ہے۔ لیکن اب یہ ایک سیاسی طوفان کے مرکز میں آ گیا ہے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے ہیں جس میں انہوں نے ان بیانیوں کی اصلاح کا مطالبہ کیا ہے جنہیں وہ "تقسیمی بیانیے" کہتے ہیں۔ یہ اقدام 178 سال پرانے ادارے کو ان کی وسیع تر مہم کے نشانے کی زد پر لے آیا ہے جسے وہ "ووک آئیڈیالوجی" کے خلاف جنگ قرار دیتے ہیں۔
اس نئے حکم کے تحت، نائب صدر جے ڈی وینس کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ وہ سمتھسونین کی جائیدادوں، جن میں 21 عجائب گھر، 21 لائبریریاں، 14 تحقیقاتی اور تعلیمی مراکز، اور قومی چڑیا گھر شامل ہیں، سے ان نظریاتی اثرات کا قلع قمع کریں جنہیں انتظامیہ نامناسب سمجھتی ہے۔
وزیر داخلہ ڈگ برگم کو یہ کام سونپا گیا ہے کہ وہ 2020 کے بعد سے ہٹا دی گئی یا تبدیل کی گئی ان عوامی یادگاروں، مجسموں اور یادگاری نشانات کی نشاندہی کریں اور انہیں ممکنہ طور پر بحال کریں،ٹرمپ کے مطابق، اس اقدام کا مقصد "امریکی تاریخ کی غلط نشاط" کو روکنا ہے۔
یہ حکم، جس کا عنوان امریکی تاریخ میں سچائی اور عقل کی بحالی ہے، نیشنل میوزیم آف افریقی امریکن ہسٹری اینڈ کلچر کو خاص طور پر نشانہ بناتا ہے، جس کے بارے میں ٹرمپ کا کہنا ہے کہ اس نے محنت و مشقت اور جوہری خاندان کو "سفید ثقافت کے پہلو" کے طور پر بیان کیا ہے۔
وسیع پیمانے کا ثقافتی حملہ
ٹرمپ نے یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ یہ "خواتین کے کھیلوں میں حصہ لینے والے مرد کھلاڑیوں کی کامیابیوں کو منانے" کی کوشش کرتا ہے، سمتھسونین امریکن ویمنز ہسٹری میوزیم پر بھی تنقید کی ہے۔
سمتھسونین، جو سالانہ 30 ملین سے زیادہ زائرین کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے اور ایک ارب ڈالر سے زیادہ کے بجٹ پر کام کرتا ہے، نے اس حکم پر ابھی تک کوئی جواب نہیں دیا۔ لیکن اس غیر معمولی اقدام نے پہلے ہی اس بات پر شدید ثقافتی بحث کو جنم دیا ہے کہ امریکہ کی کہانی کون اور کیسے بیان کرے گا۔
قدامت پسندوں کا کہنا ہے کہ یہ حکم قوم کے سب سے بڑے تاریخی ادارے میں برسوں کے لبرل تعصب کو درست کرے گا۔
"ووکنیس" کو ختم کرنے پر مرکوز قدامت پسند عیسائی پوڈکاسٹ دی گریٹ اووکیننگ کے میزبان جوش ڈاس نے سمتھسونین کے امریکی تاریخ کو سمجھنے پر اثرات کو تسلیم کیا لیکن اس کی تصویر کشی پر اعتراض کیا۔
انہوں نے ایک پوسٹ میں لکھا ہے کہ"ایک بائیں بازو کا ایجنڈا اس ادارے میں کوئی جگہ نہیں رکھتا جسے ہماری قومی کہانی کو ترتیب دینے کا کام سونپا گیا ہے۔"
ماہرین کا کہنا ہے کہ جنوری میں وائٹ ہاؤس واپس آنے کے بعد سے سمتھسونین کے خلاف یہ جنگ ٹرمپ کی وسیع تر ثقافتی مہم کا حصہ ہے۔ ، انہوں نے تعلیم، میڈیا، اور فنون میں بائیں بازو کے غلبے کے خلاف اپنی مہم کو تیز کر دیا ہے۔
ٹرمپ نے حال ہی میں "بہت زیادہ لبرل" قرار دینے کے بعد واشنگٹن کے ایک بڑے آرٹس وینیو کینیڈی سینٹر کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے ۔ اب، انہوں نے قوم کے دارالحکومت کو از سر نو تشکیل دینے پر اپنی توجہ مرکوز کر لی ہے۔
ایک علیحدہ ایگزیکٹو آرڈر میں، جس کا عنوان ڈسٹرکٹ آف کولمبیا کو محفوظ اور خوبصورت بنانا ہے، ٹرمپ نے ایک بین الا ایجنسی ٹاسک فورس کے قیام کا اعلان کیا تاکہ امیگریشن کے نفاذ کو بڑھایا جا سکے اور شہر میں جرائم پر قابو پایا جا سکے۔
انہوں نے بارہا واشنگٹن کو "قتل اور جرم کی پناہ گاہ" قرار دیا ہے اور مقامی حکومت کا براہ راست کنٹرول سنبھالنے کی دھمکی دی ہے۔
یہ حکم "مربوط خوبصورتی منصوبے" کا بھی احاطہ کرتا ہے، جسے ٹرمپ قوم کے دارالحکومت کو صاف کرنے کی کوشش کے طور پر بیان کرتے ہیں۔
وفاقی مداخلت
ٹرمپ نے گزشتہ سال انتخابی مہم کے دوران کہا تھا،"ہم اپنے خوفناک طور پر چلائے جانے والے واشنگٹن، ڈی سی کو سنبھالیں گے، اسے صاف کریں گے،اس کی نشاط نو تعمیر کریں گے، اور اسے ایک بار پھر ایک خوبصورت دارالحکومت بنائیں گے،" ۔ یہ پیغام ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط ہونے کے فوراً بعد وائٹ ہاؤس نے ایکس پر پوسٹ کر دیا ہے۔
اس کے اثرات وسیع پیمانے کے ہیں۔ واشنگٹن، ڈی سی، تقریباً 700,000 رہائشیوں کا گھر ہے — جن میں سے زیادہ تر ڈیموکریٹس ہیں — جنہیں کانگریس میں کوئی ووٹنگ نمائندگی حاصل نہیں ہے۔
اگرچہ امریکہ کا دارالحکومت اپنے معاملات خود چلاتا ہے، کانگریس کے پاس مقامی فیصلوں کو مسترد کرنے کا اختیار ہے، اور ریپبلکنز کے کنٹرول میں ہونے کے ساتھ ہی ٹرمپ نے دارالحکومت پر براہ راست وفاقی اختیار استعمال کرنے کی دھمکی دی ہے۔
پہلے ہی، شہری حکام نے کچھ رعایتیں دے رکھی ہیں، جن میں بے گھر کیمپوں کو ہٹانا اور یہاں تک کہ ایک "بلیک لائیوز میٹر" دیوار کو ہٹانا شامل ہے، جو بظاہر وفاقی مداخلت کو روکنے کی کوشش ہے۔
ایک بڑی جنگ
لیکن سمتھسونین کی جنگ مختلف ہے۔ یہ شہری حکمرانی یا جرائم کے بارے میں نہیں ہے — یہ خود تاریخ کے بارے میں ہے۔
سابق آر این سی چیئرمین اور میری لینڈ کے سابق لیفٹیننٹ گورنر مائیکل اسٹیل نے کوئی کسر نہیں چھوڑی، ٹرمپ کے تازہ ترین ایگزیکٹو آرڈر کو سب کے لیے ایک غیر صحت مند اقدام قرار دیا۔
"آج، ٹرمپ نے ایک اور ای او پر دستخط کیے، اس بار تاریخ کو دوبارہ لکھنے کی کوشش کرتے ہوئے، اسٹیل نے یہ دعویٰ کیا ہےکہ سمتھسونین 'ایک تقسیم اورنسل پرستی پر مبنی نظریے کے زیر تسلط آ چکا ہے''۔
"آپ کا مطلب ہے غلامی اور مقامی امریکی زمینوں کے قبضے کے بارے میں بات کرنا؟ یہ کوئی نظریہ نہیں ہے — یہ حقیقت ہے۔"
ٹرمپ نے ایگزیکٹو آرڈر میں سمتھسونین پر تنقید کی کہ وہ ایسے بیانیے کو فروغ دے رہا ہے جو امریکی اور مغربی اقدار کو نقصان دہ قرار دیتا ہے۔
سمتھسونین صرف امریکہ کا عجائب گھر نیٹ ورک نہیں ہے؛ یہ ایک ایسا ادارہ ہے جو قومی یادداشت کو تشکیل دیتا ہے، تاریخی تفہیم کو ترتیب دیتا ہے، اور اس چیز میں مدد دیتا ہے کہ امریکی خود کو کیسے دیکھتے ہیں۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ شاید امریکہ کے اپنے وژن کو اس کے سب سے تاریخی دیواروں پر نقش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ٹرمپ کے حکم کے مطابق، ان کا ارادہ ہے: " ایک تحریک اور امریکی عظمت کی علامت کے طور پر سمتھسونین انسٹی ٹیوشن کو اس کی صحیح جگہ پر بحال کرنا، نوجوان ذہنوں کے تخیل کو بیدار کرنا، امریکی تاریخ اور جدت کی دولت کو عزت دینا، اور تمام امریکیوں کے دلوں میں فخر پیدا کرنا۔"
فی الحال، سمتھسونین خاموش ہے۔ لیکن اس کے عظیم نیوکلاسیکل عمارتوں کے اندر، اس کے تحقیقاتی مراکز میں، اور اس کے کیوریٹرز اور مورخین کے درمیان پیغام واضح ہے: شاید امریکی تاریخ کی از سر نو ہ تحریر ابھی شروع ہوئی ہے۔