حکام کے مطابق متنازعہ کشمیر میں مسلسل تین راتوں سے پاکستان اور بھارت کی افواج کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ کیا جا رہا ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں گذشتہ پچیس سالوں کے بد ترین مسّلح حملے کے بعد بھارت نے پاکستان پر "سرحد پار دہشت گردی" کی حمایت کا الزام عائد کیا ہے ۔
تاہم اسلام آباد نے کسی بھی قسم کی مداخلت سے انکار کیا ، ان الزامات کو "بے بنیاد" قرار دیا اور کہا ہے کہ "ہم،کسی بھی بھارتی کارروائی کا جواب دیں گے"۔
بھارتی سکیورٹی فورسز نے 22 اپریل کو پہلگام کے سیاحتی مقام پر 26 افراد کے قتل کے ذمہ داروں کی تلاش کے لیے ایک بڑے پیمانے کا آپریشن شروع کیا اور مفرور حملہ آوروں میں دو پاکستانی شہریوں کو بھی شامل کیا ہے۔
بھارتی فوج نے اتوار کو جاری کردہ بیان میں کہا ہےکہ "لائن آف کنٹرول پر پاکستان کی طرف سے چھوٹے ہتھیاروں کے ساتھ "بلا اشتعال" فائرنگ کی گئی" ہے۔ بھارتی فوج نے چھوٹے ہتھیاروں کی فائرنگ کے ساتھ اس کا مؤثر جواب دیا ہے"۔
پاکستان نے ابھی تک فائرنگ کے اس تازہ تبادلے کی تصدیق نہیں کی۔
حملے کے بعد، نئی دہلی نے پانی کی تقسیم کے معاہدے کو معطل کر دیا، پاکستان کے ساتھ مرکزی زمینی سرحدی گزرگاہ بند کرنے کا اعلان کیا، سفارتی تعلقات کو کم کر دیا، اور پاکستانیوں کے لیے ویزے منسوخ کر دیئے ہیں۔
جواباً، اسلام آباد نے بھارتی سفارتکاروں اور فوجی مشیروں کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا، سکھ یاتری خارج بھارتی شہریوں کے ویزے منسوخ کر دیے اور اپنی طرف سے مرکزی سرحدی گزرگاہ بند کر دی ہے۔
اقوام متحدہ نے دونوں ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ "زیادہ سے زیادہ تحمل" کا مظاہرہ کریں تاکہ مسائل کو "باہمی مفاہمت کے ذریعے پرامن طریقے سے حل کیا جا سکے"۔