ترک صدر رجب طیب ایردوان نے شام کے دارالحکومت دمشق میں مار الیاس چرچ پر ہونے والے مہلک دہشت گرد حملے کی شدید مذمت کی ہے۔
پیر کے روز ایکس پر ایک پوسٹ میں انہوں نے "دمشق میں مار الیاس چرچ پر ہونے والے گھناؤنے دہشت گرد انہ حملے" کی مذمت کی۔
ایردوان نے ہلاک شدگان کے اہل خانہ، شامی حکومت اور شام کے عوام سے تعزیت کا اظہار کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ میں زخمیوں کی جلد صحت یابی کی دعا کرتا ہوں۔
ایردوان نے اس بات پر بھی زور دیا کہ اس حملے کا مقصد شام اور وسیع تر خطے میں امن، سلامتی اور بقائے باہمی کو غیر مستحکم کرنا ہے۔
انہوں نے دہشت گردی کے خلاف شام کی کوششوں کے لیے انقرہ کی حمایت پر زور دیتے ہوئے کہا، "شام کے امن، داخلی استحکام اور مل جل کر رہنے کی ثقافت کو نشانہ بنانے والے اس گھناؤنے دہشت گردانہ حملے کے سامنے، ہم شامی عوام اور حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم اپنے ہمسایہ اور برادر ملک شام کو، جو برسوں میں پہلی بار امید کے ساتھ مستقبل کی طرف دیکھ رہا ہے، پراکسی دہشت گرد تنظیموں کے ہاتھوں دوبارہ عدم استحکام کی طرف گھسیٹنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ترکیہ دہشت گردی کے خلاف شامی حکومت کی جنگ کی حمایت جاری رکھے گا۔
شام کی وزارت صحت نے کہا ہے کہ داعش دہشت گرد گروپ سے تعلق رکھنے والے ایک خودکش بمبار نے اتوار کے روز دمشق کے مشرق میں ایک گرجا گھر کے اندر خود کو دھماکے سے اڑانے سے قبل فائرنگ کی جس کے نتیجے میں کم از کم 20 افراد ہلاک اور 52 دیگر زخمی ہو گئے۔
یہ واقعہ شام کی وزارت داخلہ کی جانب سے 26 مئی کو دمشق کے دیہی علاقوں میں داعش کے ٹھکانوں کو بے نقاب کرنے کے اعلان کے چند ہفتوں بعد پیش آیا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ چھاپے کے دوران انہوں نے ہلکے اور درمیانے درجے کے ہتھیار قبضے میں لیے ہیں۔
اسد حکومت کے خاتمے کے بعد سے شام کی سکیورٹی سروسز جرائم، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور دہشت گردی سے متعلق سرگرمیوں میں ملوث افراد کا تعاقب جاری رکھے ہوئے ہیں۔
تقریبا 25 سال تک شام کے صدر رہنے والے بشار الاسد دسمبر میں روس فرار ہو گئے تھے، جس کے بعد اسد حکومت کا خاتمہ ہو گیا تھا، جو 1963 سے برسراقتدار تھی۔
اسد کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے لیے حکومت مخالف قوتوں کی قیادت کرنے والے احمد الشرع کو جنوری میں عبوری مدت کے لیے صدر قرار دیا گیا تھا۔