امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے رواں ہفتے میں کانگریس سے خطاب میں دعوی کیا ہے کہ امریکہ نے ایران کے جن مقامات پر بمباری کی ہے وہاں "جوہری اسلحہ پروگرام" موجود تھا"۔
ٹرمپ کے اس دعوے نے، ان کے ایران پر حملے کے فیصلے کے ساتھ امریکی انٹیلی جنس تعاون کے بارے میں سوالات کو جنم دیا ہے۔
ریپبلکن صدر نے یہ دعویٰ پیر کے روز ، اپنے قریبی اتحادی اورایوان نمائندگان کے اسپیکر مائیک جانسن کو ارسال کردہ خط میں کیاہے۔ خط وائٹ ہاؤس کی ویب سائٹ پر بھی شائع کیا گیا ہے۔
ٹرمپ نے لکھا ہے کہ"امریکی افواج نے ایران کی تین جوہری تنصیبات پر ایک حساس حملہ کیا ہے۔ ان تنصیبات کو اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت اپنے جوہری ہتھیار پروگرام کے لیے استعمال کر رہی تھی"۔
کوئی ثبوت نہیں
ایران کے جوہری پروگرام کی نگران تقریباً ہر تنظیم اور ادارے کا کہنا ہے کہ تہران جوہری ہتھیار نہیں بنا رہا تھا۔
بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل رافیل گروسی نے ایک انٹرویو میں کہا ہےکہ ایجنسی کے پاس اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ تہران جوہری ہتھیار بنانے کی باقاعدہ کوشش کر رہا ہے۔
قومی انٹیلی جنس کے سربراہ 'ٹلسی گیبرڈ 'کی طرف سے مارچ کو کانگریس میں پیش کردہ تازہ ترین انٹیلی جنس جائزےکے مطابق ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے 2003 میں بند کیے گئے جوہری ہتھیاروں کے پروگرام کو دوبارہ شروع کرنے کا حکم نہیں دیا۔
امریکہ قومی انٹیلی جنس کےویب سائٹ پر جاری کردہ بیان میں بھی کہا گیا ہے کہ "انٹیلی جنس کے مطابق ایران جوہری ہتھیار نہیں بنا رہا اور سپریم لیڈر خامنہ ای نے 2003 میں معطل کیے گئے جوہری اسلحہ پروگرام کو دوبارہ شروع کرنے کی اجازت نہیں دی۔"
سابق ڈیموکریٹ ' گیبرڈ 'نے جمعہ کو سوشل میڈیا پر کہا ہےکہ ان کے بیان کو سیاق و سباق سے کاٹ کر پیش کیا جا رہا ہے۔ میں، ٹرمپ کے ساتھ ہم فکر ہوں۔
گیبرڈ نے ایکس سے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ"بددیانت میڈیا جان بوجھ کر میرے بیان کو سیاق و سباق سے ہٹا کر پیش کر رہا اور جعلی خبریں پھیلا رہا ہے تاکہ اختلافات پیدا کیے جا سکیں۔"
دوسری طرف ایران کا اصرار ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے۔
واضح رہے کہ سابق امریکی صدر جارج بش نے 2003 میں عراق پر حملے کو یہ کہہ کر جائز قرار دیا تھا کہ انٹیلی جنس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس ملک کے پاس تباہ کن ہتھیار موجود ہیں۔ یہ دعویٰ بعد میں غلط ثابت ہوا اور سیاسی ردعمل کا باعث بنا تھا۔
بش نے خود بعد میں اعتراف کیا تھا کہ عراق میں کوئی تباہی پھیلانے والے ہتھیار موجود نہیں تھے۔ اس اعتراف کے باوجود ان کے خلاف کوئی عدالتی کاروائی نہیں کی گئی۔
"مجھے اس کے بیان کی کوئی پرواہ نہیں ہے"
ٹرمپ نے گذشتہ ہفتے ایران کے جوہری پروگرام کے بارے میں انٹیلی جنس پر پہلی بار شک کا اظہار کیااور گیبرڈ کے کانگریس میں دیئے گئے بیان کو مسترد کر دیا تھا۔
ٹرمپ نے صحافیوں سے بات چیت میں جوہری ہتھیاروں کا ذکر کیا اور کہا ہے کہ"مجھےاس کے بیان کی کوئی پرواہ نہیں ہے ۔ میرےخیال میں ایران جوہری ہتھیار بنانے کے قریب تھا"۔
حملوں سے پہلے مرتب کی گئی خفیہ امریکی انٹیلی جنس رپورٹوں کے مطابق ایران نے 2003 میں ایک جوہری ہتھیار پروگرام بند کر دیا تھا اور ایران تمام ضروری ٹیکنالوجیوں میں مہارت نہیں رکھتا ۔ یہ بیان، اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے کے ساتھ مشترک ہے ۔
لیکن رپورٹوں کے مطابق تہران کے پاس کسی بھی وقت وار ہیڈ بنانے کی مہارت موجود ہو سکتی ہے۔
امریکہ نے اتوار کو ایران کی تین جوہری تنصیبات ، نطنز، اصفہان اور فردو ، پر حملہ کیا تھا۔
حملے میں امریکہ نے بنکر بسٹنگ بم استعمال کئے اورجدید سینٹری فیوجز کے جوہری ری ایکٹر ایندھن کی کم افزودہ یورینیئم اور جنگی وار ہیڈوں کے لئے بلند سطح پر افزودہ یورینیئم کی پیداوار دینے کی اہل "فردو تنصیب" کو نشانہ بنایا تھا۔
ٹرمپ اور دیگر اعلیٰ حکام نے کہا ہےکہ ان مقامات کو تباہ کر دیا گیا ہے۔ لیکن ایک ابتدائی امریکی انٹیلی جنس جائزے کے مطابق حملے نے تہران کے جوہری پروگرام کو محض چند مہینے پیچھے دھکیلا ہے۔
امریکی کانگریس میں جائزہ رپورٹ کو پڑھنے والے ایک امریکی اہلکار نے کہا ہےکہ جائزہ کئی تنبیہات لئے ہوئے ہے۔ آئندہ دنوں یا ہفتوں میں ہم زیادہ بہتر رپورٹ کی توقع رکھتے ہیں۔