بنگلہ دیش کے جنوبی علاقے گوپال گنج میں بدھ کے روز شروع ہونے والی جھڑپوں کے نتیجے میں
3 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔
روزنامہ' پروتھوم آلو' اور 'بی ڈی نیوز24'کی فراہم کردہ معلومات کے مطابق گوپال گنج سرکاری ہسپتال کے ڈاکٹر' جبیتیش بسواس' نے کہا ہے کہ ہسپتال میں 3 لاشیں پہنچائی گئی ہیں۔
جھڑپوں کے بعد ملک کی عبوری حکومت نے علاقے میں کرفیو لگا دیا ہے جو جمعرات کی شام تک جاری رہے گا۔ حکام نے جھڑپوں میں ہونے والی اموات کی سرکاری سطح پر تصدیق نہیں کی۔
واضح رہے کےجنوبی ایشیاء کے ملک 'بنگلہ دیش' میں، گذشتہ سال جولائی میں شیخ حسینہ حکومت کا تختہ الٹنے کا سبب بننے والی بغاوت کی سالانہ یاد منانے کے لئے، قومی "یومِ سوگ" منایا جا رہا ہے۔
بغاوت کی ہراول صفوں میں شامل اور طالبعلموں کے لیڈروں کی قائم کردہ 'قومی شہری پارٹی' نے تقریبات کے ذیل میں گوپال گنج کی طرف مارچ کی جسے سابق صدر شیخ حسینہ کا آبائی علاقہ اور عوامی یونین پارٹی کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔
اس وقت بھارت میں موجود حسینہ کو، حکومت مخالف مظاہروں میں سخت تدابیر اختیار کرنے کے احکامات جاری کرنے اور ایک ہزار 400 سے زائد افراد کی ہلاکت کا سبب بننے کے دعوے سے، انسانیت سوز جرائم کا قصوروار ٹھہرایا جا رہا ہے۔
محمد یونس کی زیرِ قیادت بنگلہ دیش کی عبوری حکومت نے وارننگ دی ہے کہ پُر تشدد واقعات کے فاعلوں کو سخت نتائج بھگتنا پڑیں گے۔
صدارتی دفتر کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ "شدّت کے استعمال کا کسی بھی شکل میں دفاع نہیں کیا جا سکتا۔ ذمہ داروں کی فوری نشاندہی کی جانی اور ان کا احتساب کیا جانا چاہیے۔بنگلہ دیش میں کسی بھی شہری کے خلاف اس نوعیت کے تشدد کی کوئی جگہ نہیں ہے"۔
حکام نے شہری نظم و ضبط کی یقین دہانی کے لئے علاقے میں اضافی پولیس نفری اور فوجی یونٹیں متعین کر دی ہیں۔
مقامی حکام نے دفعہ 144کا نفاذ کر کے عوامی اجتماع کو ممنوع قرار دے دیا ہے۔ انتخابی کمیشن نے بھی 'عوامی پارٹی' کے انتخابی نشان کو سرکاری انٹرنیٹ سائٹ سے ہٹا دیا ہے۔ قبل ازیں حسینہ سمیت تمام پارٹی لیڈروں پر عدالتی کاروائی مکمل ہونے تک 'عوامی یونین' پارٹی کی تمام کاروائیوں کو معطل کر دیا گیا تھا۔