ترک صدر رجب طیب اردوان نے خاص طور پر انقرہ اور واشنگٹن کے درمیان اسٹریٹجک تعلقاتسمیت تیزی سے بدلتے ہوئے عالمی ماحول میں امن اور استحکام کو فروغ دینے کے لیے ترکیہ کی بڑھتی ہوئی کوششوں پر زور دیا ہے۔
انہوں نے جمعہ کو البانیہ کے سرکاری دورے کے بعد ترکیہ واپسی بیان دیتے ہوئے کہا کہ "ترکیہ-امریکہ شراکت داری ہمارے خطے اور دنیا میں استحکام قائم کرنے کے لیے انتہائی اہم ہے۔ ہم ایک تعمیری اور نتیجہ خیز مکالمے کے پلیٹ فارم کی تشکیل کے لیے کوشاں ہیں۔"
انہوں نے مشترکہ اقدار اور اسٹریٹجک ہم آہنگی ، خاص طور پر نیٹو کے دائرہ کار میں اس پر دوبارہ توجہ دینے کی ضرورت پر زور دیا ۔
دفاعی تعاون
ایردوان نے دفاعی تعاون اور پابندیوں سے متعلق دیرینہ تنازعات پر بھی بات کی اور کہا: "CAATSA کے حوالے سے، ہم بلا جھجک کہہ سکتے ہیں کہ نرمی دیکھنے کو ملی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ہم CAATSA کے عمل کو بھی تیزی سے عبور کر لیں گے۔"
ترک صدر نے زور دیا کہ دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعاون پر کوئی پابندی نہیں ہونی چاہیے۔
انہوں نے کہا، "دو عظیم اتحادیوں اور نیٹو کے اراکین کے طور پر، ہمارے درمیان دفاع کے میدان میں کوئی رکاوٹ یا پابندی نہیں ہونی چاہیے۔" انہوں نے انقرہ کی توقعات کو دہرایا کہ اسٹریٹجک اتحاد کو نقصان پہنچانے والی تمام رکاوٹوں کو ختم کیا جائے۔
انہوں نے کہا، "اسٹریٹجک شراکت داری کی روح کے خلاف تمام رکاوٹوں کو ہٹانا ہماری سب سے بڑی توقع ہے۔ ہر مثبت قدم قیمتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ مزید اقدامات بھی ہوں گے۔"
امن و استحکام
انہوں نے حالیہ پیش رفت کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا، "امریکی محکمہ خارجہ نے ترکیہ کو 300 ملین ڈالر سے زائد مالیت کے ایئر ٹو ایئر میزائل کی فروخت کی منظوری دی ہے۔"
شام، عراق اور دہشت گردی
ایردوان نے یورپ پر زور دیا کہ وہ شام میں دہشت گردی کے خاتمے اور تعمیر نو کی ذمہ داری لے۔ انہوں نے شام پر پابندیاں ہٹانے کے حالیہ امریکی فیصلے کو مثبت مثال قرار دیا۔
انہوں نے کہا، "میں امریکی صدر مسٹر ٹرمپ کے شام پر پابندیاں ہٹانے کے فیصلے کو اس تناظر میں بہت اہم اور معنی خیز سمجھتا ہوں۔ مجھے امید ہے کہ میرے دوست ٹرمپ کا فیصلہ تمام متعلقہ فریقین، خاص طور پر یورپی یونین کے لیے ایک مثال بنے گا۔"
ترکیہ کے شام کی حکومت کے ساتھ مضبوط تعلقات برقرار رکھنے پر زور دیتے ہوئے ایردوان نے کہا، "ہمارے شام کی انتظامیہ کے ساتھ اس وقت بہت اچھے تعلقات ہیں۔ شامی صدر احمد شراع نے ترکیہ کے دو دورے کیے ہیں۔ ہمارے درمیان انتہائی نتیجہ خیز بات چیت ہوئی۔"
انہوں نے کہا کہ یہ نقطہ نظر نہ صرف شام بلکہ پڑوسی عراق میں بھی امن اور استحکام کو فروغ دے گا۔
داخلی اور سرحد پار انسداد دہشت گردی کی کوششوں پر بات کرتے ہوئے ترک صدر نے کہا: "[پی کے کے] دہشت گرد تنظیم کے مکمل ہتھیار ڈالنے، تحلیل کے فیصلے کے مکمل نفاذ، اور غیر قانونی سرگرمیوں کو ترک کرنا ضروری ہے۔"
انہوں نے مزید کہا کہ ترک سرحدوں کے باہر دہشت گرد عناصر کو غیر مسلح کرنے کے لیے ہمسایہ ممالک کے ساتھ بات چیت جاری ہے۔
ترکیہ کی ثالثی کے لیے آمادگی
یوکرین جنگ اور پاکستان-بھارت تنازع
انہوں نے ترکیہ کی ثالثی اور سفارت کاری کو فروغ دینے کی تیاری کی تصدیق کی۔
انہوں نے کہا، "ہم فریقین کے درمیان بات چیت کے چینلز کو کھلا رکھنے اور مذاکرات جاری رکھنے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے۔" یہ بات انہوں نے روس اور یوکرین کے حوالے سے کہی، جن کے نمائندے تین سال میں پہلی بار استنبول میں براہ راست مذاکرات کے لیے موجود تھے۔
صدر نے تصدیق کی کہ ترکیہ روس-یوکرین جنگ کے خاتمے کے لیے واشنگٹن، ماسکو، اور کیف کے درمیان فعال ثالثی کر رہا ہے اور یورپ سے اعلیٰ سطحی سفارتی کوششوں کی حمایت کا مطالبہ کیا۔
انہوں نے کہا، "ہم توقع کرتے ہیں کہ تمام متعلقہ فریقین، بشمول یورپی یونین، اس حساس عمل کی حمایت کریں جو ہم امریکی صدر مسٹر ڈونلڈ ٹرمپ، روسی صدر مسٹر ولادیمیر پوٹن، اور یوکرینی صدر مسٹر ولادیمیر زیلنسکی کے ساتھ کر رہے ہیں تاکہ یوکرین میں جلد امن حاصل کیا جا سکے۔"
ترک صدر نے یورپ پر زور دیا کہ وہ "سیاسی رکاوٹوں اور تعصب پر مبنی رویوں کو پیچھے چھوڑ دے" جو زیادہ تعاون میں رکاوٹ بن رہے ہیں، اور خبردار کیا کہ ایسا نہ کرنے سے یورپ کی مسابقت اور طویل مدتی استحکام کو نقصان پہنچے گا۔
انہوں نے کہا، "یورپ کے پاس خاموش رہنے کا اب وقت نہیں ہے،" یوکرین میں جاری جنگ اور غزہ میں انسانی بحران کا حوالہ دیتے ہوئے۔ "ہم صرف یہ نہیں کہہ رہے کہ 'جنگ ختم کرو،' بلکہ ہم طریقے تجویز کر رہے ہیں، زمین ہموار کر رہے ہیں، اور عمل کے لیے کال دے رہے ہیں۔
انہوں نے کہا، "سب سے پہلے، جنگ کے خاتمے کے لیے ہتھیاروں کو خاموش ہونا چاہیے اور سفارت کاری کو بولنا چاہیے۔ امن مذاکرات شروع ہونے چاہئیں، اور اس موقع کو ضائع نہیں کرنا چاہیے۔" پاکستان اور بھارت کے حالیہ تنازع پر اردوان نے کہا: "اگر فریقین کی جانب سے درخواست کی گئی تو یقیناً ہم اپنا کردار ادا کریں گے۔ ہم امن چاہتے ہیں؛ ہم دونوں پڑوسیوں کے درمیان کوئی کشیدگی نہیں چاہتے۔"
غزہ میں انسانی بحران
غزہ اور مغربی کنارے میں جاری تشدد پر بات کرتے ہوئے، ایردوان نے یورپ پر ایک بار پھر زور دیا کہ وہ اپنی خاموشی توڑے اور فعال ذمہ داری لے۔
انہوں نے کہا، "غزہ میں انسانی المیہ اور مغربی کنارے پر حملوں کے سامنے یورپ اب مزید خاموش تماشائی نہیں بن سکتا، ہم نیتن یاہو حکومت پر دباؤ بڑھانے کے لیے تمام دستیاب ذرائع استعمال کرتے رہیں گے۔"
انہوں نے اسرائیلی فوجی جارحیت کے خاتمے اور پائیدار امن کے راستے پر زور دیا۔
انہوں نے کہا، "خطے میں پائیدار امن کا راستہ دو ریاستی حل میں ہے۔ سب سے مؤثر طریقہ 1967 کی سرحدوں کے اندر ایک جغرافیائی طور پر مربوط فلسطینی ریاست کا قیام ہے، جس کا دارالحکومت مشرقی یروشلم ہو۔"
انہوں نے کہا، "اسرائیل اپنے شہریوں کی سلامتی کو ہر روز درجنوں غزہ کے بچوں، خواتین، اور بے گناہوں کو قتل کر کے یقینی نہیں بنا سکتا۔ جتنی جلدی وہ اس جنون کی حالت کو ترک کریں گے، یہ سب کے لیے بہتر ہوگا۔"
انہوں نے کہا، "غزہ کے پاس ضائع کرنے کے لیے وقت نہیں ہے، ایک دن بھی نہیں۔ ہم ہر پلیٹ فارم پر اس کا اظہار کرتے ہیں۔ غزہ میں اسرائیلی جارحیت کو روکنا ضروری ہے۔"