اسرائیلی افواج نے غزہ میں عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے عملے کی رہائش گاہ پر تین بار حملہ کیا ہے، ساتھ ہی اس کے مرکزی گودام پر بھی حملہ کیا، اور عملے اور ان کے اہل خانہ کو حراست میں لیا۔
ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل تیدروس ادہانوم گیبریسس نے پیر کو ایک بیان میں کہا کہ یہ حملے دیر البلح میں عملے کی رہائش گاہ پر کیے گئے۔
انہوں نے کہا، "اسرائیلی فوج نے عمارت میں داخل ہو کر خواتین اور بچوں کو جھڑپوں کے دوران پیدل المواسی کی طرف جانے پر مجبور کیا۔"
تیدروس نے کہا کہ مرد عملے اور ان کے اہل خانہ کو ہتھکڑیاں لگا کر،برہنہ کر کے، موقع پر ہی تفتیش کی گئی اور بندوق کی نوک پر جانچ پڑتال کی گئی، مزید کہا کہ ڈبلیو ایچ او کے دو کارکنان اور ان کے کنبے کے افراد کو حراست میں لیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ تین افراد کو بعد میں رہا کر دیا گیا، لیکن ایک کا رکن تاحال زیرِ حراست میں ہے، رسائی ممکن بننے پر ڈبلیو ایچ او کے 32 کارکنوں اور ان کے اہل خانہ کو دفتر منتقل کیا گیا ۔
ڈبلیو ایچ او نے حراست میں لیے گئے عملے کی فوری رہائی اور تمام عملے کے تحفظ کا مطالبہ کیا۔
جنگ بندی کی ضرورت
دیر البلح میں اسرائیلی انخلا کے تازہ ترین حکم پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے، تیدروس نے اس بات پر زور دیا کہ اس نے ڈبلیو ایچ او کے کئی دفاتر کو متاثر کیا ہے، جس سے ادارے کی غزہ میں کام کرنے کی صلاحیت متاثر ہوئی ہے اور صحت کے نظام کو مزید تباہی کی طرف دھکیل دیا ہے۔
انہوں نے یاد دلایا، "ڈبلیو ایچ او کا مرکزی گودام جو دیر البلح میں واقع ہے، انخلا کے زون کے اندر ہے، اور کل ایک حملے کے دوران دھماکوں اور آگ سے اسے نقصان پہنچا۔"
انہوں نے کہا، "ادارہ رکن ممالک سے فوری طور پر مطالبہ کرتا ہے کہ وہ غزہ میں طبی سامان کی مستقل اور باقاعدہ فراہمی کو یقینی بنانے میں مدد کریں،" انہوں نے زور دیا کہ ڈبلیو ایچ او کی کارروائیوں کو متاثر کرنا غزہ میں صحت کے پورے ردعمل کو مفلوج کر رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا، "جنگ بندی صرف ضروری نہیں بلکہ تاخیر کا شکار ہے۔"
غزہ میں اسرائیلی نسل کشی
اسرائیل نے محصور علاقے میں اپنی تباہی کے دوران تقریباً 59,000 فلسطینیوں کو ہلاک کیا ہے، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں۔
فلسطین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی وفا کے مطابق، تقریباً 11,000 فلسطینیوں کے تباہ شدہ گھروں کے ملبے تلے دبے ہونے کا خدشہ ہے۔
تاہم، ماہرین کا کہنا ہے کہ اصل ہلاکتوں کی تعداد غزہ کے حکام کی رپورٹ کردہ تعداد سے کہیں زیادہ ہے، اور اندازہ لگایا گیا ہے کہ یہ تقریباً 200,000 ہو سکتی ہے۔
نسل کشی کے دوران، اسرائیل نے محصور علاقے کے بیشتر حصے کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا ہے، اور عملی طور پر اس کی پوری آبادی کو بے گھر کر دیا ہے۔
اس نے انتہائی ضروری انسانی امداد کی فراہمی کو بھی روک دیا ہے، اور صرف ایک متنازعہ امریکی حمایت یافتہ امدادی گروپ کو اجازت دی ہے جو اقوام متحدہ کی امدادی کارروائیوں کو نظرانداز کرنے کے لیے قائم کیا گیا تھا اور جسے "موت کا جال" قرار دیا گیا ہے۔