یورپی یونین کے سابق نمائندہ اعلیٰ برائے خارجہ امور و سلامتی پالیسی جوزپ بوریل نے 1995 کے سربرینیکا قتل عام اور غزہ میں جاری جنگ کے درمیان موازنہ کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اگر عالمی برادری خاموش رہی تو مزید ایک نسل کشی کا خطرہ ہے۔
بوریل نے جمعہ کے روز سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پراپنی پوسٹ میں لکھا ہے کہ "30 سال قبل ہم سربرینیکا نسل کشی کو روکنے میں ناکام رہے۔ آج ہم متاثرین کو خراج عقیدت پیش کررہےہیں۔" انہوں نے مزید کہا، "ان کو یاد کرنےکا بہترین طریقہ یہ ہے کہ غزہ میں جاری دوسری نسل کشی کو روکا جائے۔"
جولائی 1995 میں، بوسنیائی سرب افواج نے اقوام متحدہ کے اعلان کردہ محفوظ علاقے سربرینیکا پر قبضہ کرتے ہوئے 8,000 سے زائد بوسنیائی مسلمان مردوں اور لڑکوں کو قتل کر دیا تھا۔ یہ علاقہ اس وقت ولندیزی امن فوج کے زیرِ تحفظ تھا۔
جنرل راتکو ملادیچ کی قیادت میں افواج، جنہیں بعد میں نسل کشی کا مجرم قرار دے کر عمر قید کی سزا سنائی گئی، نے پہلے دن تقریباً 2,000 افراد کا قتل کیا۔ اگلے چند روز میں ہزاروں مزید افراد کو قتل کر دیا گیا جب وہ قریبی جنگلات میں فرار ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔
متاثرین کی باقیات بوسنیا و ہرزیگووینا میں 570 سے زائد اجتماعی قبروں سے برآمد ہوئی ہیں۔
غزہ میں اسرائیل کی تباہ کاری
اکتوبر 2023 سے اسرائیل غزہ میں نسل کشی کر رہا ہے۔ فلسطینیوں کے مطابق اب تک 57,800 سے زائد فلسطینی، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں، قتل کیے جا چکے ہیں۔
فلسطین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی وفا کے مطابق تقریباً 11,000 فلسطینیوں کے تباہ ہونے والے مکانات کے ملبے تلے دبے ہونے کا خدشہ ہے ۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اصل ہلاکتوں کی تعداد غزہ کے حکام کی رپورٹ کردہ تعداد سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے، جو کہ 200,000 کے قریب ہو سکتی ہے۔
واشنگٹن اپنے دیرینہ اتحادی اسرائیل کو سالانہ 3.8 ارب ڈالر کی فوجی امداد فراہم کرتا ہے۔
اکتوبر 2023 سے، امریکہ نے غزہ میں اسرائیل کی نسل کشی اور پڑوسی ممالک میں جنگوں کی حمایت کے لیے 22 ارب ڈالر سے زیادہ خرچ کیے ہیں۔