چین کو، امریکہ کے ساتھ جاری تجارتی جنگ کی شدّت میں کمی کی خاطر ایک سمجھوتہ طے کرنے کی کوششوں کے دوران ، نایاب دھاتوں میں اپنی برتری پر پورا بھروسہ ہے۔
الیکٹرک گاڑیوں، ہارڈ ڈرائیووں، ونڈ ٹربائنوں اور میزائلوں میں استعمال ہونے والی یہ نایاب دھاتیں جدید معیشت اور قومی دفاع کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔
معدنیاتی سیکٹر کی ترقی
منڈی اصلاحات کے ساتھ چین کو اقتصادی طاقت کا مرکز بنانے والے راستے پر گامزن کرنے والے سابق رہنما ڈینگ ژیاؤپنگ نے 1992 میں کہا تھا کہ"مشرق وسطیٰ کے پاس تیل ہے تو چین کے پاس نایاب دھاتیں ہیں۔"
تب سے، ریاستی ملکیت والی کان کنی کمپنیوں میں بیجنگ کی بھاری سرمایہ کاری اور دیگر صنعتوں کے مقابلے میں نرم ماحولیاتی قوانین نے چین کو دنیا کا سب سے بڑا سپلائر بنا دیا ہے۔
بین الاقوامی توانائی ایجنسی کے مطابق، چین اب عالمی ریفائنڈ پیداوار کے 92 فیصد کا مالک ہے۔
تاہم، اپریل کے اوائل میں بیجنگ نے مقامی برآمد کنندگان کو لائسنس کے لیے درخواست دینے کو ضروری قرار دے دیا، جسے بڑے پیمانے پر امریکی ٹیرف کے جواب کے طور پر دیکھا گیا۔ بیجنگ کے اس اقدام کے بعد دنیا بھر کے آجروں کو نایاب دھاتوں کی فراہمی سست ہو گئی۔
نئی شرائط کے تحت، جنہیں صنعتی گروپ پیچیدہ اور سست قرار دے رہے ہیں، سات اہم عناصر اور متعلقہ مقناطیسوں کو غیر ملکی خریداروں کو بھیجنے کے لیے بیجنگ کی منظوری ضروری ہے۔
گہرا اثر
ان اہم عناصر تک رسائی کو یقینی بنانا امریکی حکام کے لیے چینی ہم منصبوں کے ساتھ بات چیت میں ایک اہم ترجیح بن گیا ہے، اور دونوں فریق اس ہفتے لندن میں ملاقات کر رہے ہیں۔
ایشیاء سوسائٹی پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے سینٹر فار چائنا اینالیسس کے ٹیکنالوجی ماہر پال ٹرائلو نے پیر کو ایک آن لائن سیمینار میں کہا ہے کہ"نایاب دھاتوں کا مسئلہ واضح طور پر... تجارتی مذاکرات کے دیگر حصوں پر غالب آ گیا ہے کیونکہ امریکی فیکٹریوں کے کام میں رکاوٹیں پیدا ہو رہی ہیں۔"
ٹرائلو نے کہا ہے کہ "اس رکاوٹ نے، جس کی وجہ سے امریکی کار ساز کمپنی فورڈ کو عارضی طور پر اپنی ایکسپلورر ایس یو وی کی پیداوار روکنی پڑی، حقیقی معنوں میں وائٹ ہاؤس کی توجہ حاصل کی ہے ۔
دونوں ممالک کے حکام نے منگل کو جاری کردہ بیان میں کہا ہےکہ "ہم نےتجارت پر آگے بڑھنے کے لیے ایک 'فریم ورک' پر اتفاق کیا ہے"۔امریکی کامرس سیکریٹری ہاورڈ لٹ نک نے امید ظاہر کی ہے کہ نایاب دھاتوں تک رسائی کے خدشات "بالآخر حل ہو جائیں گے۔"
نایاب دھاتوں میں برتری
لائسنس کے اجراء کی سست روی نے ، مال کی فراہمی کے انتظار میں، مزید کار ساز کمپنیوں کی پیداوار رُکنے کے خدشات پیدا کر دیئے ہیں۔
چین وزارت تجارت نے ہفتے کے آخر میں کہا ہے کہ "ہم نے، ایک "بڑی اور ذمہ دار قوم" کی حیثیت سے، برآمدی درخواستوں کی ایک خاص تعداد کو منظور کر لیا ہے اور ہم "متعلقہ ممالک" کے ساتھ متعلقہ بات چیت کو تقویت دینے کے لیے تیار ہیں"۔
ایسے دور میں کہ جب دونوں ممالک کے درمیان تجارتی اور جغرافیائی سیاسی کشیدگی گہری ہو رہی ہے اس رکاوٹ نےواشنگٹن کے اپنے دفاعی سامان کی تیاری کے لئے چین کی نایاب دھاتوں پر انحصار کو اجاگر کر دیا ہے ۔
سینٹر فار اسٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز کے نایاب عناصر سکیورٹی پروگرام میں شامل گریسلین باسکران اور میرڈیتھ شوارتز کے حالیہ تجزیے کے مطابق ایک ایف-35 لڑاکا طیارے میں 900 پاؤنڈ (400 کلوگرام سے زیادہ نایاب دھاتیں استعمال ہوتی ہیں ۔
انہوں نے کہا ہے کہ "کان کنی اور پروسیسنگ صلاحیتوں کی ترقی ایک طویل المدتی کوشش ہے، جس کا مطلب ہے کہ امریکہ مستقبل قریب میں ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جائے گا۔"
مقابلہ کرنے کی کوشش
حالیہ برآمدی کنٹرول کے اقدامات پہلی بار نہیں ہے کہ جب چین نے نایاب دھاتوں کی رسدی زنجیر پر اپنی برتری کا فائدہ اٹھایا ہو۔
2010 میں ایک چینی ٹرالر اور جاپانی کوسٹ گارڈ کی کشتیوں کے درمیان متنازعہ پانیوں میں تصادم کے بعد، بیجنگ نے مختصر طور پر اپنی نایاب دھاتوں کی ٹوکیو کو ترسیل روک دی تھی۔
اس واقعے نے جاپان کو متبادل ذرائع میں سرمایہ کاری کرنے اور ان اہم عناصر کے ذخائر کو بہتر بنانے پر مجبور کیا، لیکن اس کی کامیابی محدود سطح پر رہی۔
ٹرایلو نے کہا ہے کہ اگرچہ اس واقعے کے 15 سال بعد، جاپان نے صرف "معمولی فوائد" حاصل کیے ہیں لیکن یہ کوشش چین پر انحصار میں کمی کی ضرورت کو ثابت کرنے والی ایک اچھی مثال ہے ۔
پینٹاگون، 202 تک ، بنیادی عناصر سے مکمل طور پر مقامی رسدی زنجیر کی فراہمی کے زیرِ مقصد "معدنی مقناطیس" حکمت عملی کے ساتھ، خلاء کو پُر کرنے کی کوششیں کر رہاہے۔
چین دنیا کے سب سے بڑے معدنی عناصر ذخائر کا مالک ہے اور یہ پہلو، نایاب معدنیات کی فراہمی کے موضوع پر، واشنگٹن کو بیجنگ کے ساتھ رقابت میں درپیش مسائل کو مزید گھمبیر بنا رہا ہے۔
آئی این جی کے ریکو لومن اور ایوا مانتھے نے منگل کو شائع ہونے والے ایک تجزیے میں لکھا ہے کہ "موزوں کان کنی ارتکاز زیادہ تر دیگر معدنی اجناس کے مقابلے میں کم معروف ہونے کی وجہ سے معدنیات نکالنے کی لاگت زیادہ ہو جاتی ہے۔"
انہوں نے لکھا ہے کہ "یہ پیچیدہ اور مہنگی کان کنی اور پروسیسنگ ہی نایاب دھاتوں کو اسٹریٹجک طور پر اہم بناتی ہےاور یہی پہلو چین کو ایک مضبوط مذاکراتی پوزیشن عطا کر رہاہے"۔