پاکستانی حکام نے کہا ہے کہ پاکستان پر بھارت کے میزائل حملوں کے بعد جوابی کاروائی میں پاکستانی فضائیہ نے پانچ بھارتی جنگی طیارے مار گرائے ہیں۔ بھارتی حملے میں پاکستان کے 8 شہری جاں بحق، 35 زخمی اور 2لاپتہ ہوگئے ہیں۔
پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے بدھ کے روز جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ 5 بھارتی جنگی طیارے مار گرائے گئے ہیں۔
بلومبرگ کے لئے جاری کردہ بیان میں انہوں نے کہا ہے کہ "اگر یہ جارحانہ کارروائیاں بند ہو جائیں... تو ہم بھارت سے بات کریں گے۔ ہم اس صورتحال کو بڑھانا نہیں چاہتے۔ لیکن اگر بھارتی جانب سے جارحیت کی گئی تو ہمیں جواب دینے پر مجبور ہو جائیں گے"۔
پاک فوف کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے رائٹرز کو بتایا ہےکہ پاکستان نے بھارت کے تین رافیل طیارے، ایک سخوئی SU-30 اور ایک MIG-29 مار گرائے ہیں۔
بھارت حکومتی ذرائع نے رائٹرز نیوز ایجنسی کے لئے جاری کردہ بیان میں تصدیق کی ہےکہ تین جنگی طیارے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں گر کر تباہ ہو گئے ہیں۔
ایک بھارتی عہدیدار نے مزید کہا ہے کہ ایک زخمی پائلٹ کو اسپتال منتقل کیا گیا ہے۔
اس سے قبل، پاکستان کے وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ نے ٹی آر ٹی ورلڈ کو بتایا تھاکہ ایک طیارہ متنازعہ کشمیر کے اکھنور سیکٹر میں اور دوسرا بھارت کے شہر امبالہ میں مار گرایا گیا، جبکہ ایک UAV ڈرون بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے جمّوں میں گرایا گیا ہے۔
پاک فوج کے ترجمان نے کہا ہے کہ بھارت کی کچھ دیگر دفاعی تنصیبات کو بھی "تباہ" کیا گیا ہے۔
بھارت نے ابھی تک پاکستان کے دعووں کا جواب نہیں دیا۔
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں رہائشیوں نے زوردار دھماکوں کی اطلاع دی اور ویڈیوز شیئر کی ہیں جن میں مبینہ طور پر گرائے گئے اسلحےکے حصے دکھائی دے رہے ہیں۔
بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع پلوامہ کے علاقے 'وویان'میں ، تباہ شدہ جنگی طیارے کی حفاظت پر مامور، بھارتی فوجیوں کی تصاویر سوشل میڈیا پر تیزی سے پھیل گئی ہیں۔
پہلگام حملے کے اثرات
جوہری ہتھیاروں سے لیس ہمسایہ ممالک کے درمیان یہ کشیدگی 22 اپریل کو بھارت کے زیر انتظام کشمیر کےعلاقے پہلگام میں اور 26 افراد کا سبب بننے والے حملے کے بعد شروع ہوئی تھی۔
بھارت نے حملے کے "سرحد پار روابط" کا دعوی کیا اور بغیر کسی ثبوت کے اس حملے کا الزام پاکستان پر عائد کیا تھا۔
پاکستان نے ان الزامات کی سختی سے تردید کی اور غیر جانبدار تحقیقات کا مطالبہ کیا لیکن بھارت نے اس مطالبے کی حمایت نہیں کی تھی۔
کشمیر ،بھارت اور پاکستان کے درمیان تنازعے کا مرکز رہا ہے۔ علاقے کا کچھ حصّہ پاکستان اور کچھ بھارت کے زیرِ کنٹرول ہے تاہم دونوں ممالک 1947 سے اسے مکمل طور پر اپنا حصّہ قرار دے رہے ہیں ۔
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مزاحمت کار 1989 سے مزاحمتی کاروائیاں کر رہے ہیں۔ زیادہ تر مسلمان کشمیری ، مجاہدین کے آزادی یا پاکستان کے ساتھ الحاق کے مقصد کی، حمایت کرتے ہیں۔
بھارت باقاعدگی سے اپنے ہمسایہ ملک پر کشمیر میں مزاحمت کی حمایت کا الزام لگاتا چلا آ رہاہے۔ پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ صرف کشمیریوں کے حق خودارادیت کے لیے سیاسی، اخلاقی اور سفارتی حمایت فراہم کرتا ہے جیسا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں میں درج ہے۔
بھارت نے اس چھوٹے ہمالیائی علاقے میں تقریباً 500,000 فوجی تعینات کیے ہیں۔
پہلگام حملے کے بعد، دونوں ممالک نے جوابی اقدامات کا سلسلہ شروع کیا۔
بھارت نے پاکستان کے ساتھ اہم پانی کی تقسیم کے سندھ طاس معاہدے کو معطل کر دیا اور واحد فعال زمینی سرحدی گزرگاہ بند کر دی۔ اس نے اتوار سے پاکستانیوں کو جاری کیے گئے ویزے منسوخ کر دیے تھے۔
پاکستان نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے بھارتیوں کو جاری کیے گئے ویزے منسوخ کر دیے، اپنی فضائی حدود بھارتی فضائی کمپنیوں کے لیے بند کر دیں، تجارت روک دی اور بھارت کے ساتھ شملہ معاہدہ معطل کر دیا تھا۔
1972 کا یہ معاہدہ، خاص طور پر مسئلہ کشمیر کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے، قیامِ امن اور تنازعات کو دو طرفہ شکل میں حل کرنے کے لیے طے کیا گیا تھا ۔