ترکیہ کی وزیر برائے خاندانی وسماجی بہبود، 'ماہ نور اعوزدیمیر گوکتاش 'نے ایک دفعہ پھر فلسطین اور غزہ کے بچوں کے ساتھ انقرہ کی حمایت و یکجہتی پر زور دیا ہے۔
ماہ نور نے فلسطین کے وزیر برائے سماجی بہبود' سماح حماد 'کے ہمراہ بروز ہفتہ، اسرائیلی حملوں میں زخمی ہونے کے بعد بغرض ِعلاج ترکیہ لائے گئے، فلسطینی بچوں سے ملاقات کی ۔
وزراء نے دارالحکومت انقرہ میں 'بلکینٹ روایتی کھیلوں کے یوتھ اینڈ اسپورٹس کلب' میں بچوں کے ساتھ وقت گزارا۔ وزراء نے تیر اندازی کے مقابلوں میں حصہ لیا اور بچوں کو گھُڑ سواری کرتے دیکھا۔
تقریب کے بعد صحافیوں سے بات چیت میں وزیر ماہ نور نے کہا ہے کہ "ہم ماضی کی طرح آج، کل اور ہمیشہ اپنے فلسطینی بہن بھائیوں اور غزہ کے بچوں کی حمایت جاری رکھیں گے۔"
گوکتاش نے اسرائیلی حملوں سے سب سے زیادہ متاثرہ معاشرتی طبقے یعنی غزہ کی عورتوں اور بچوں پر ٹوٹنے والے مصائب پر دکھ کا اظہار کیااور کہا ہے کہ"اسرائیل، دنیا کی آنکھوں کے سامنے جاری نسل کشی میں تمام اخلاقی اقدار کو پسِ پُشت ڈال کر اسکولوں اور اسپتالوں تک کو نشانہ بنا رہا ہے۔"
انہوں نے کہا ہے کہ ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوعان کی زیرِ قیادت ' ترکیہ'، فلسطینی عوام کی آواز بنا ہوا ہے۔
فلسطین کے وزیر برائے سماجی بہبود' سماح حماد ' نے بھی غزہ کے بچوں کے ساتھ ملاقات پر فخر کا اظہار کیا اورکہا ہے کہ اپنے والدین کے ہمراہ غزّہ سے نکالے گئے اور ترکیہ میں زیرِ علاج ان بیمار بچوں کے لیے ترکیہ وزارت خاندانی و سماجی بہبود کی کوششیں قابلِ ستائش ہیں۔ انہوں نے وزیر ماہِ نور کی بچوں کے ساتھ قریبی دلچسپی کو بھی سراہا ہے۔
سماح حماد نے کہا ہے کہ"ہمیں یقین ہے کہ غزہ میں جاری حملے اور بھوک ہر فلسطینی کو متاثر کر رہے ہیں۔ تقریباً 80 دنوں سے غزہ میں نہ تو خوراک پہنچی ہے اور نہ ہی انسانی امداد۔ وہاں پانی، صحت کی دیکھ بھال، یا تعلیمی مواقع دستیاب نہیں ہیں، اور بہت سے لوگ جاں بحق ہو چکے ہیں۔ آج جن بچوں سے ہم ملےہیں ان میں سے زیادہ تر اپنے کسی نہ کسی عزیز سے محروم ہو چکے ہیں۔"
انہوں نے ترکیہ کا شکریہ ادا کیا اور امید ظاہر کی ہے کہ یہ دورہ، ایک مقصد پر متحد دو ملّتوں، کے باہمی تعلقات کو مضبوط کرے گا ۔"
ترکیہ کی وزیر برائے خاندانی وسماجی بہبود ، 'ماہ نور اعوزدیمیر گوکتاش 'نے بھی کہا ہےکہ صدر رجب طیب اردوعان نے 2026-2035 کو "خاندان و آبادی کی دہائی" اعلان کیاہے۔ اس اعلان کی رُو سے ترکیہ آئندہ دس سالوں میں تعلیم، صحت، روزگار، محنت، اور سماجی شعبوں میں خاندانی مرکزیت پر مبنی پالیسیوں کو ترجیح دے گا ۔