ذرائع کے مطابق بھارت نے پاکستان کے ساتھ نئی کشیدگی شروع ہونے اور نتیجتاً سندھ طاس معاہدے کی منسوخی کے بعدکشمیر میں واقع دو پن بجلی منصوبوں کے ذخائر کی گنجائش بڑھانے کے لیے کام شروع کر دیا ہے ۔
یہ توسیعی کام ، جوہری ہتھیاروں کے مالک رقیب ملکوں کے درمیان تین جنگوں اور متعدد جھڑپوں کے باوجود 1960 سے تاحال جاری سندھ طاس معاہدے کی طے شدہ شرائط کے برعکس، بھارت کی طرف سے اٹھایا گیا پہلا ٹھوس قدم ہے۔
گذشتہ ماہ، مقبوضہ کشمیر میں 26 افراد کی ہلاکت کا سبب بننے والے مسلح حملے کے بعد، بھارت نے تین حملہ آوروں میں سے دو کو پاکستانی قرار دے کر اس معاہدے کو معطل کر دیا تھا۔ یہ معاہدہ پاکستانی کھیتوں کے 80 فیصد پانی کی فراہمی کو یقینی بناتا تھا ۔
اسلام آباد نے معاہدے کی معطلی پر بین الاقوامی قانونی کارروائی کی دھمکی دی ، حملے میں کسی بھی کردار سے انکار کیا اور خبردار کیا ہے کہ "پاکستان کے پانی کے بہاؤ کو روکنے یا موڑنے کی کسی بھی کوشش کو جنگی اقدام سمجھا جائے گا۔"
نام کو پوشیدہ رکھتے ہوئے ذرائع نے کہا ہے کہ جمعرات کو "ذخائر کی صفائی" شروع ہوئی، جس کا مقصد ذخائر کے پیندے میں جمع بھل کو ہٹانا تھا۔ یہ کام بھارت کی سب سے بڑی پن بجلی کمپنی 'این ایچ پی سی لمیٹڈ' اور خطے کے حکام نے انجام دیا ہے۔
پاکستان اپنی آبپاشی اور پن بجلی کے لیے بھارت سے بہنے والے دریاؤں پر انحصار کرتا ہے تاہم یہ کام فوری طور پر پاکستان کو پانی کی فراہمی کو متاثر نہیں کر سکتا۔لیکن اگر دیگر منصوبے بھی اسی طرح کے اقدامات شروع کریں تو پاکستان پہنچنے والے پانی پر اس کا اثر پڑ سکتا ہے۔
اس خطے میں ایسے منصوبوں کی تعداد آدھے درجن سے زیادہ ہے۔
ذرائع نے مزید بتایا ہےکہ یہ بھل صفائی 1987 اور 2008/09 میں سالال اور بگلیہار منصوبوں کی تعمیر ہونے کے بعد سے پہلی بار کیا جا رہا ہے ۔ معاہدے نے ایسے کاموں پر پابندی عائد کی تھی یہی وجہ ہے کہ پاکستان کو اس کی کوئی اطلاع نہیں دی گئی۔
بھارت کی این ایچ پی سی اور پڑوسی حکومتوں نے تبصرے کے لیے بھیجے گئے ای میلوں کا جواب نہیں دیا۔
1947 میں برطانوی نوآبادیاتی حکمرانی سے آزادی کے بعد سے، بھارت اور پاکستان میں مسئلہ کشمیر پر تین جنگیں ہو چُکی ہیں، اس کے علاوہ کئی مختصر تنازعات بھی ہوئے۔
ذرائع کے مطابق، صفائی کا عمل یکم مئی سے تین دن تک جاری رہا۔
ایک ذریعے نے کہا ہے کہ "یہ پہلا موقع ہے کہ ایسا عمل ہوا ہے اور یہ زیادہ مؤثر بجلی پیدا کرنے اور ٹربائنوں کو نقصان سے بچانے میں مدد دے گا۔"
ذرائع نے مزید کہا کہ "ہمیں صفائی کے لیے ایڈجسٹ ایبل گیٹ کھولنے کو بھی کہا گیا تھاجو ہم نے یکم مئی سے کیا۔"
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں دریائے چناب کے کنارے رہنے والے لوگوں نے کہا ہےکہ انہوں نے جمعرات سے ہفتہ تک سالال اور بگلیہار ڈیموں سے پانی کے اخراج کو محسوس کیا ہے۔
پن بجلی منصوبوں کی صفائی کے لیے ذخائر کو تقریباً خالی کرنا ضروری ہوتا ہے تاکہ بھل کو نکالا جا سکے، جو پیداوار میں کمی کی ایک بڑی وجہ ہے۔
مثال کے طور پر، دو ذرائع نے کہا کہ 690 میگاواٹ سالال منصوبے کی فراہم کردہ بجلی اس کی صلاحیت سے بہت کم تھی، کیونکہ پاکستان نے ایسی صفائی کو روکا تھا، جبکہ تلچھٹ نے 900 میگاواٹ بگلیہار منصوبے کی پیداوار کو بھی متاثر کیا۔
ایک ذریعے نے کہا، "صفائی عام بات نہیں ہے کیونکہ اس سے پانی کا بہت زیادہ ضیاع ہوتا ہے۔"
انہوں نے مزید کہا ہے کہ " اس سے کسی قسم کی سیلابی صورتحال کے لئے تیار رکھنے کے لئے نیچے کے ممالک کو مطلع کیا جانا چاہیے ۔"
دونوں منصوبوں کی تعمیر کے لیے پاکستان کے ساتھ وسیع بات چیت کی ضرورت تھی، جو اپنے پانی کے حصے کے نقصان کے بارے میں فکر مند تھا۔
دریائے سندھ اور اس کی معاون دریاوں کو دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان تقسیم کرنے والے 1960 کے اس معاہدے کے تحت، بھارت نے ہائیڈرولوجیکل بہاؤ جیسا ڈیٹا شیئر کرتا اور سیلاب کی پیشگی اطلاع دیتا تھا۔
بھارت کے وزیر پانی نے عزم ظاہر کیا ہے کہ "سندھ دریا کا ایک قطرہ بھی پاکستان تک نہیں پہنچنے دیں گے۔"
دونوں ممالک کے حکومتی اہلکاروں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت فوری طور پر پانی کے بہاؤ کو نہیں روک سکتا، کیونکہ معاہدے نے اسے پاکستان کو مختص تین دریاؤں پر بڑے ذخائر کے بغیر پن بجلی کے منصوبے بنانے کی اجازت دی ہے۔
کشویندر ووہرا ، جو بھارت کے سینٹرل واٹر کمیشن کے حال ہی میں ریٹائرڈ سربراہ ہیں اور پاکستان کے ساتھ سندھ تنازعات پر وسیع کام کر چکے ہیں، نے کہا ہے کہ معاہدے کی معطلی کا مطلب ہے کہ بھارت "اب اپنی مرضی سے اپنے منصوبے جاری رکھ سکتا ہے"۔