بیروت سے لاس ویگاس تک، تیونس سے روم تک فلسطین کے حامی مظاہرے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکے ہیں۔ غزہ پر مسلسل اسرائیلی بمباری کی مذمت کے لیے لوگ سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔
'دریا سے سمندر تک، فلسطین آزاد ہوگا' کا نعرہ مظاہرین کے اجتماع کے لئے ایک پُکار بن گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، مغربی حکام کے اِسے صیہونی دشمنی قرار دینے کی وجہ سے یہ نعرہ تنقید کا نشانہ بھی بن رہا ہے۔
یہ اس حقیقت کا مختصر بیان ہے کہ فلسطینی تاریخی فلسطین میں رہتے ہیں، چاہے وہ اسرائیلی شہری ہوں یا مقبوضہ علاقوں میں رہتے ہوں، ہر جگہ کسی نہ کسی قسم کی دباؤ کا سامنا کرتے ہیں اور یہ ختم ہونا چاہیے۔ مشرق وسطی میں انسانی حقوق کی ایک ماہر ، جو اپنی شناخت خفیہ رکھتی ہیں اور ڈاکٹر نینسی سوکولنک کے عرفی نام سے جانی جاتی ہیں، کا کہنا ہے کہ "یہ نعرہ بنیادی طور پر دریائے اردن سے بحیرہ روم تک پھیلی ہوئی متحد فلسطینی ریاست کی خواہش کا اظہار کرتا ہے"۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ فلسطینی لوک ثقافت اور انقلابی گیتوں میں پوری گہرائی سے شامل ہے۔ مختلف عربی شکلوں کے ساتھ بھی یہ نعرہ معروف ہے۔ ان شکلوں میں سب سے عام "من المایہ لل مایہ" ہے جس کا مطلب ہے "پانی سے پانی تک" ۔ دو پانیوں کا ذکر کر کے اصل میں شاعرانہ انداز میں بحیرہ روم اور دریائے اردن کا حوالہ دیا گیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس جملے کی گہری ثقافتی اہمیت ہے اور اس نے فلسطینی شناخت اور قوم کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
یہ زمین سے تعلق پر زور دیتا ہے، نو آبادیاتی نظام کو مسترد کرتا، آزادی کا مطالبہ کرتا اور ایک واحد جامع ریاست کے قیام کا مطالبہ کرتا ہے۔ ایسی ریاست جو فلسطینیوں کی نمائندگی کرے اور سب کے لیے مساوی حقوق کی ضمانت دے۔
تاہم، اسرائیل کے حامی گروہ اس جملے پر اکثر حماس کے حامی نعرے کا لیبل لگاتے ہیں اور اسے 'اسرائیل کو تباہ کرنے کی دعوت' قرار دیتے ہیں۔ 7 اکتوبر کو شروع ہونے والی جھڑپوں کے ساتھ، اسرائیلی بیانیے کو طاقت ملتی دکھائی دیتی ہے۔
"تشدد سے مربوط کرنا"
برطانیہ کی وزیر داخلہ سویلا بریورمن نے ،لندن میں کچھ فلسطین حمایتی مظاہروں کے بعد 'منگل کو پولیس سربراہان کو 'فلسطینی پرچموں کی نمائش اور فلسطین حمایتی نعروں کے بارے میں ایک وارننگ جاری کی۔
'حالانکہ یہ جدوجہدِ فلسطینی آزادی کے کچھ بنیادی پہلوؤں کی غلط تعبیر ہے، بریورمن نے کہا کہ 'دریا سے لے کر سمندر تک، فلسطین آزاد ہوگا' کے بیان کو اسرائیل کے خاتمے کے لیے تشدد کی خواہش کے اظہار کے طور پر سمجھا جانا چاہیے۔
ویانا پولیس نے بدھ کو ایک مماثل موقف اختیار کیااور 'دریا سے سمندر تک' کی عبارت والے ایک فلسطین حمایتی مظاہرے پر پابندی عائد کردی۔ پولیس نے اسے تشدد کا مطالبہ قرار دیا اور کہا کہ یہ اسرائیل کو نقشے سے مٹانے کا اشارہ ہے۔
شہر کے پولیس فورس کے سربراہ گرہارڈ پورسٹل نے کہا کہ بنیادی طور پر 'دریا سے لے کر سمندر تک، فلسطین آزاد ہوگا' کے الفاظ پر مبنی یہ نعرہ حماس نے بلند کیا اور یہ پی ایل او (فلسطین لبریشن آرگنائزیشن) کا نعرہ ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے جب اس نعرے کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہو۔
2018 میں سی این این نے ، فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی کے بین الاقوامی دن پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں دیے گئے بیانات کی وجہ سے، مارک لامونٹ ہل کو برطرف کر دیا۔ ان بیانات میں انہوں نے 'دریا سے لے کر سمندر تک، ایک آزاد فلسطین' کا مطالبہ کیا تھا۔
پیغام کی وضاحت
20 ویں صدی کی عرب دنیا میں فلسطینی تاریخ کی ماہر تاریخ دان ماہا نصر نے 2018 میں اپنے مضمون بعنوان 'دریا سے سمندر تک' رقم کیا اور اس میں کہا کہ اس نعرے کا مطلب وہ نہیں ہے جو آپ سمجھتے ہیں۔ ماہا نصر نے اس نعرے کی تاریخی جڑوں پر روشنی ڈالی اور کہا کہ اس نعرے کی تاریخی جڑیں حماس کے قیام سے کہیں زیادہ پرانی ہیں ۔ یہ نعرہ اتنا ہی قدیم ہے جتنی کہ صیہونیت کے خلاف فلسطینی مزاحمت ۔ ماہا نصر کا کہنا تھا کہ 'اس نعرے میں 'دریا سے سمندر تک' کے الفاظ پر مبنی جملے میں موجزن آزادی کا مطالبہ تقریبا 76 سال قبل فلسطینی علاقوں میں یہودی ریاست کے قیام کی کوششوں سے شروع ہوتا ہے۔ 29 نومبر 1947 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کو دو الگ الگ ریاستوں، ایک یہودی ریاست اور ایک عرب ریاست میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا۔ جب فلسطین کے یہودیوں نے اس فیصلے کا جشن منایا تو عرب آبادی نے اس کی شدید مخالفت کی۔
وہ فلسطین کو ایک ناقابل تقسیم وطن یعنی "دریا سے سمندر تک" کی شکل میں دیکھ رہے تھے۔ اقوام متحدہ کی رائے شماری کے بعد فلسطین میں یہودیوں اور عربوں کے درمیان جھڑپیں شروع ہو گئیں۔ صیہونی عسکریت پسندوں نے پرتشدد حملے کیے جس کے نتیجے میں فلسطینیوں کو ان کے گھروں اور زمینوں سے زبردستی بے دخل کیا گیا۔
بہت سے فلسطینی 'دریا سے سمندر تک' کے فقرے کو ایک ایسی ریاست کے پیش خیمہ کے طور پر دیکھتے ہیں جس میں وہ آزاد شہریوں کے طور پر رہ سکیں اور جہاں انہیں روزانہ اسرائیلی امتیازیت کا سامنا نہ کرنا پڑتا ہے۔ جب اسرائیل کی ریاست قائم ہوئی تو لاکھوں فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کر دیا گیا۔
جیسا کہ سوکولنک نے کہا کہ 'اسرائیل کی سرزمین' سے فلسطینیوں کی اجتماعی جلا وطنیوں کا ایک تاریخی ریکارڈ ہے۔ یہ ریکارڈ 1947۔1952 کے نکبہ سے لے کر مقبوضہ مغربی کنارے کے دیہاتوں اور محلوں سے مسلسل جلاوطنی تک پھیلا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ حکومت میں موجود اسرائیلی سیاست دانوں کی جانب سے جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔ سکولنک نے کہا ہے کہ"جب تک ان کی مناسب طریقے سے مذمت نہیں کی جاتی اور ان پر مقدمہ نہیں چلایا جاتا، فلسطینی حامی مظاہرین کے خلاف سخت اقدامات کرنا دوہرا معیار لگتا ہے۔ برطانوی وزیر داخلہ اور ویانا پولیس جس تعصب کا شکار ہیں وہ فلسطینی مخالف جذبات ہو سکتے ہیں۔