واشنگٹن، ڈی سی
ایراسمس کےکرسٹنگ کا کہنا ہے کہ: یہ وہ طریقہ ہے جس سے معاشی جنگیں شروع ہوتی ہیں اور حقیقی جنگوں کی طرح، یہ شاذ و نادر ہی رفع دفع ہوتی ہیں۔
ولانووا یونیورسٹی کے پروفیسر، جو شعبہ معاشیات کے سربراہ اور ایک معروف ماہر اقتصادیات ہیں، اس اعتماد کے ساتھ بات کرتے ہیں جو کسی ایسے شخص میں ہوتا ہے جو تجارتی رجحانات کا مطالعہ کر رہا ہو، خاص طور پر جب سے ٹرمپ کے پہلے محصولات نافذ ہوئے۔ آج، وہ تاریخ کو خود کو دہراتے ہوئے دیکھ رہے ہیں — لیکن زیادہ سخت انداز میں۔
کرسٹنگ نے ٹی آر ٹی ورلڈ کو بتایا: "اس وقت، ہر کوئی متاثر ہوگا۔ امریکی صارفین کو قیمتوں میں اضافے کا سامنا ہوگا جبکہ کمپنیوں کو بیرون ملک طلب میں کمی کا سامنا ہوگا۔ یہ اب ایک تجارتی جنگ ہے، محصولات دونوں اطراف کے بازار کو متاثر کر رہے ہیں۔ اور امریکی صارفین کسی بھی صورت میں نقصان اٹھائیں گے۔"
9 پریل کو، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے زیادہ تر محصولات کوماسوائے چین کے 90 دن کے لیے معطل کر دیا ہے، انہوں نے بھی پیچھے ہٹنے سے انکار کر دیا۔
بیجنگ کے 84 فیصد جوابی محصولات کے جواب میں، واشنگٹن نے محصولات کو 125 فیصد تک بڑھا دیا اور پھر مزید 20 فیصد جرمانے شامل کر دیے۔ جو کہ 145 فیصد بنتا ہے۔
چین نے بھی جواب دیا، امریکی مصنوعات پر اپنے محصولات کو 125 فیصد تک بڑھا دیا۔ نتیجہ: ایک ایسا اضافہ جس نے بازاروں کو ہلا کر رکھ دیا، سپلائی چینز کو متاثر کیا، اور دونوں سپر پاورز کو اپنی جگہ پر جمے رہنے پر مجبور کر دیا۔
کرسٹنگ مزید کہتے ہیں: "کچھ اشیاء زیادہ مہنگی ہو سکتی ہیں۔ کچھ مکمل طور پر غائب ہو سکتی ہیں۔ اور اگرچہ چینی صارفین کو کچھ نقصان ہوگا، ان کی معیشت امریکہ کی طرح صارفین پر منحصر نہیں ہے۔ اس لحاظ سے، چین کو یہاں برتری حاصل ہے۔"
سرد تجارتی جنگ
نیویارک کی ایک میکرو اکنامسٹ سارہ کلین اس صورتحال کو ایک سائنسی انداز میں بیان کرتی ہیں۔
انہوں نے ٹی آر ٹی ورلڈ کو بتایا کہ"اسمارٹ فونز۔ لیپ ٹاپس۔ کھلونے۔ یہ امریکی صارفین کی زندگی کا حصہ ہیں اور ان میں سے 85 فیصد تک چین سے آتے ہیں ۔ "145 فیصد محصولات کا مطلب ہے کہ ایک ہزار ڈالر کا آئی فون 1,400 ڈالرمیں فروخت ہو گا۔ اور یہ 10 فیصد بنیادی محصولات سے قبل ہے جو ہر چیز پر اثر انداز ہو گا۔"
قیمتوں میں اضافے کی توقع ہے۔ افراط زر، جو 3 فیصد سے نیچے آ گیا تھا، سال کے آخر تک 4.4 فیصد تک پہنچنے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ جے پی مورگن 60 فیصد کساد بازاری کی وارننگ دے رہا ہے۔
یہ محض صارفین کا معاملہ ہے
امریکی مڈویسٹ میں، چین کو سویابین کی برآمدات — جو کبھی $14 بلین کی تجارتی شریان تھیں — 25 فیصد تک کم ہو گئی ہیں۔ زرعی ٹیکنالوجی کی کمپنیاں (جو کھیتوں کے آلات، بیج، یا کھادیں بناتی ہیں) چین میں اپنی فروخت کو "نمایاں طور پر متاثر" دیکھ سکتی ہیں۔
یہاں تک کہ وہ شعبے جو فائدہ اٹھانے کے لیے تھے، جیسے اسٹیل اور ایلومینیم، بھی دباؤ محسوس کر رہے ہیں۔ آٹو اور مشینری کمپنیوں کے لیے ان پٹ لاگت 15 فیصد تک بڑھ گئی ہے۔
"ایک ہاتھ دیتا ہے، دوسرے ہاتھ لیتا ہے"
چین میں، نقصان بھی شدید ہو سکتا ہے۔ فاکس کان کو آمدنی میں کمی کا سامنا ہو سکتا ہے۔ گوانگڈونگ کی فیکٹریاں مزدوروں کو نکال سکتی ہیں۔
لیکن ہر آگ میں، کچھ لوگ ایندھن تلاش کرتے ہیں۔
ویتنام کی امریکہ کو برآمدات 2020 سے 50 فیصد بڑھ گئی ہیں۔ میکسیکو، جو اب امریکہ کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے، آٹو پروڈکشن کو بڑھا رہا ہے۔ بھارت ایک بڑا الیکٹرانکس مرکز بن رہا ہے، ایپل نے وہاں آئی فون کی پیداوار کا 15 فیصد منتقل کر دیا ہے۔
کرسٹنگ کا کہنا ہے کہ"عام طور پر، وہ ممالک جو وہ مصنوعات تیار کرتے ہیں جو امریکہ چین کو برآمد کرتا تھا، فائدہ اٹھا سکتے ہیں،"
"پچھلی بار، برازیل نے زراعت میں برتری حاصل کی تھی۔ اس بار، چین یورپ کے ساتھ زیادہ تجارت کر کے امریکی دھچکے کو کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔"
کلین مزید کہتی ہیں،"یہ درمیانی طاقتوں کا انتقام ہے،" " ویتنام، میکسیکو، بھارت جیسے ممالک جو اس عمل میں غیر جانبداری کا مظاہرہ کر رہے ہیں ، اس صورتحال سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔"
لیکن دوسروں کے لیے، تجارتی جنگ ایک ایسی گرفت ہے جو دونوں طرف سے سخت ہو رہی ہے۔ یورپی یونین 900 بلین ڈالر کی امریکی تجارت اور 900 بلین ڈالر کی چینی تجارت کے درمیان پھنسی ہوئی ہے۔ جرمنی کے آٹو ساز، جو چینی پرزوں پر انحصار کرتے ہیں، قیمتوں میں اضافے کا سامنا کر رہے ہیں۔
تائیوان کی سیمی کنڈکٹر برآمدات امریکی محصولات اور چینی نایاب دھاتوں کی پابندیوں سے دباؤ میں ہیں۔ یہاں تک کہ آسٹریلیا اور کینیڈا جیسے اتحادی بھی واشنگٹن اور بیجنگ دونوں کے دباؤ کا سامنا کر رہے ہیں۔
کرسٹنگ کہتے ہیں:"مختصر مدت میں، چیزیں زیادہ مہنگی ہو جائیں گی،سپلائی چینز اپنی جگہ پر ہیں اور انہیں راتوں رات تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔"
طویل مدتی: دراڑیں اور پیش گوئیاں
مختصر مدت میں، الیکٹرانکس کی قیمتیں سب سے پہلے بڑھ سکتی ہیں۔ ایشیا سے ہوائی مال برداری کی شرحیں 20 فیصد تک بڑھ گئی ہیں۔
لیکن یہ طویل مدتی تبدیلیاں ہیں جو ماہرین اقتصادیات کو سب سے زیادہ پریشان کرتی ہیں۔
"طویل مدت میں، وہ ممالک جن کے محصولات کم ہیں زیادہ پرکشش ہوں گے، لہذا ایپل اور نائک جیسی کمپنیاں اپنی مصنوعات اور درمیانی مصنوعات کو بھارت یا ویتنام جیسے ممالک سے حاصل کرنے کی کوشش کریں گی، جب تک کہ وہ ممالک محصولات سے بچ سکیں۔"
موجودہ سپلائی چینز جو پیچیدہ، نازک، اور برسوں میں بنائی گئی ہیں ، تبدیلی کے عمل سے گزر رہی ہیں۔
ایپل 2028 تک اپنی آئی فون کی پیداوار کا 25 فیصد بھارت اور ویتنام منتقل کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔ ٹیسلا میکسیکو پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ چپ بنانے والے چین سے باہر کارخانوں میں 60 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔
ان تبدیلیوں کی قیمت اضافی اخراجات، غیر مؤثر نظام، اور صارفین کے لیے زیادہ قیمتیں ہو گا۔
کلین کہتی ہیں۔"یہ سستے سامان کا خاتمہ ہو سکتا ہے،"اور شاید، اگرچہ یہ دیکھنا باقی ہے، اس مربوط عالمی معیشت کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔"
اعتماد کا خلا
شاید سب سے زیادہ نقصان دہ عنصر اقتصادی نہیں بلکہ نفسیاتی ہے۔
کرسٹنگ کے مطابق "پالیسیوں کے اعلان، پھر تبدیلی، پھر دوبارہ اعلان کے ساتھ، اعتماد کا خلا بڑھتا ہے۔اور اعتماد، ایک بار کھو جائے، دوبارہ تعمیر ہونے میں برسوں لگتے ہیں۔
فی الحال، دونوں فریق مزید مضبوطی سے اپنی جگہ پر جمے ہوئے نظر آتے ہیں۔ بیجنگ نے واشنگٹن پر اقتصادی "غنڈہ گردی" کا الزام لگایا ہے۔ اور ٹرمپ کہتے ہیں کہ محصولات "صرف آغاز ہیں" جبکہ بیجنگ کے ساتھ ممکنہ تجارتی مذاکرات سے کچھ مثبت نکلنے کی توقع رکھتے ہیں۔
شور کے پیچھے، بنیادی اصول آہستہ آہستہ بدل رہے ہیں۔
امریکہ اور چین جو سرد جنگ کے بعد کے دور کے دو اہم ستون ہیں، ایک دوسرے سے دور ہو رہے ہیں۔ اور یہ خلا صرف اسٹریٹجک نہیں ہے۔ یہ اقتصادی ، ذاتی ہے اور ساختی ہے۔
اور جیسا کہ کرسٹنگ کا کہنا ہے، "چین اور امریکہ کا الگ ہونا صارفین اور عالمی معیشت کے لیے زبردست منفی نتائج کے ساتھ ایک بڑی تبدیلی ہوگی۔"