اقوام متحدہ کے دفتر برائےامورِ انسانی 'او سی ایچ' نے کہا ہے کہ محصور غزہ "دنیا کی بھوکی ترین جگہ" بن چکا ہے لہٰذا علاقے میں امداد کے فوری داخلے کی اجازت دی جائے۔
'او سی ایچ' کے ترجمان جینس لارکے نے یو این نیوز کے لئے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ "اس وقت خوراک اور زندگی بچانے کے سامان پر مشتمل تقریباً 1,80,000 امدادی ڈبے غزہ میں داخلے کے لیے تیار ہیں۔ غزّہ اس وقت دنیا کی، بھوک سے، مضطرب ترین جگہ بن چُکا ہے۔"
انہوں نے مزید کہا ہے کہ "یہ امدادی سامان دنیا کے عطیہ دہندگان نے پہلے ہی ادا کر دیا ہے۔ سامان کسٹم مراحل سے گزر چُکا، منظور شدہ ہے اور حرکت کے لیے تیار ہے۔ ہم فوری طور پر، بڑے پیمانے پر اور جب تک ضروری ہو، امداد پہنچا سکتے ہیں۔"
لارکے نےزور دے کر کہا ہے کہ ایجنسی کے پاس "شہریوں کو محفوظ طریقے سے امداد پہنچانے کے لیے ہر چیز موجود ہے۔"
واضح رہے کہ اسرائیل نے مارچ کے مہینے سے،زیرِ محاصرہ غزّہ میں داخلے کی منتظر ،خوراک کی ناکہ بندی کر رکھی ہے۔ غذا کی عدم موجودگی نے فلسطینیوں کو بھوک سے نڈھال اور بے بس کر دیاہے ۔
’ غلط معلومات پھیلانےکی منظم مہم‘
غزہ کے مقامی حکام نے، حماس کے گوداموں میں آٹا ذخیرہ کرنےسے متعلقہ، اسرائیلی دعوؤں کو مسترد کر دیا ہے ۔ حکام نے کہا ہے کہ یہ دعوی تل ابیب کی جانب سے " غلط معلومات پھیلانے کی منّظم مہم" کا شاخسانہ ہے۔ اس حربے سے اسرائیل ،بھوک کے بطور جنگی ہتھیار استعمال سے متعلقہ، بین الاقوامی ذمہ داری سے بچنا چاہتا ہے۔
اسرائیلی فوج کے ترجمان اویچائے ادرعی کی سوشل میڈیا ایکس سے جاری کردہ ایک ویڈیو میں، اسرائیل کی بھوک پالیسی سے متاثرہ ، مایوس فلسطینیوں کو اقوام متحدہ کے گودام پر ہجوم کرتے ہوئے دکھایا گیا۔
جواب میں غزہ میڈیا دفتر نے کہا ہے کہ "قابض اسرائیل جھوٹ پھیلا رہا ہے تاکہ اپنی منظم بھوک پالیسی کو دنیا کی نظروں سے چھُپا سکے۔ خود اسرائیل نے بین الاقوامی تنظیموں کو فلسطینی خاندانوں میں امداد تقسیم کرنے سے روکا ہوا ہے اور اس پالیسی کا مقصد شہریوں کو نشانہ بنانا ہے"۔
غزہ میڈیا دفتر نے کہا ہے کہ یہ گودام اقوام متحدہ کے عالمی خوراک پروگرام 'ڈبلیو ایف پی' کا تھا لیکن اسرائیل نے جعلی کہانی گھڑنے کے لئے عجلت سے کام لیا ہے۔
دفتر نے بین الاقوامی تنظیموں کے حوالے سے کہا ہےکہ اسرائیلی فوج نے ڈبلیو ایف پی کو ضرورت مند خاندانوں میں آٹا اور خوراک تقسیم کرنے سے روک دیا اور حکم دیا ہےکہ امداد کو صرف بیکریوں تک محدود رکھا جائے۔یہ ایک ایسی پالیسی جسے اب "انسانی ساختہ بھوک پالیسی" کہا جا رہا ہے۔
واضح رہے کہ اسرائیل محصور غزہ میں اب تک ، زیادہ تر عورتوں اور بچوں پر مشتمل، 54,000 سے زائد فلسطینیوں کو قتل کر چُکا ہے ۔