استنبول میں ایران اور یورپی طاقتوں کے درمیان دوبارہ مذاکرات ہو رہے ہیں۔
یہ ملاقات ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی کی اس وارننگ کے بعد ہو رہی ہے جس میں انہوں نے خبردار کیا تھا کہ اگر یورپی طاقتوں نے ایران پر اقوام متحدہ کی وہ پابندیاں دوبارہ عائد کرنے کی کوشش کی جو 2015 کے معاہدے کے تحت ہٹائی دی گئی تھیں تو اس سے 'ناقابل واپسی' نتائج برآمد ہوں گے۔
یہ معاہدہ جسے E3 کہا جاتا ہے، چین، روس اور امریکہ کے ساتھ طے پایا تھا۔
لیکن 2018 میں، صدر ٹرمپ نے اپنے پہلے دورِ حکومت میں یکطرفہ طور پر اس معاہدے کو منسوخ کر دیا اور ایران کے بینکاری سیکٹرپر اور تیل کی برآمدات پر دوبارہ پابندیاں عائد کر دی تھیں۔
ایک سال بعد ایران نے بھی اس معاہدے کے تحت اپنی ذمہ داریوں کو کم کرنے کا فیصلہ کیا جو اقوام متحدہ کی زیرِ نگرانی ایرانی جوہری سرگرمیوں پر پابندیوں کے بدلے اقتصادی پابندیوں میں نرمی فراہم کرتا تھا۔
تین یورپی طاقتیں، ایران کی طرف سے سابقہ اور امریکہ کی طرف سے یک طرفہ شکل میں منسوخ کئے گئے معاہدے کی کالعدمی کے بعد،اس بات پر غور کر رہی ہیں کہ آیا 2015 کے معاہدے کے 'اسنیپ بیک' میکانزم کو فعال کیا جائے یا نہیں۔ یہ میکانزم کہ جس کی معیاد اکتوبر میں ختم ہو رہی ہے،ایرانی عدم تعمیل کے جواب میں اقوام متحدہ کی پابندیوں کےدوبارہ نفاذ پر مبنی ہے۔
ایران کے اعلیٰ سفارتکار نے خبردار کیا ہےکہ ایسا موقف 'ایک عالمی جوہری پھیلاؤ کے بحران کو جنم دے سکتا ہے جو بنیادی طور پر خود یورپیوں کو متاثر کرے گا۔
تاہم، فرانسیسی ہفتہ وار میگزین 'لی پوائنٹ' کے لئے رقم کردہ مقالے میں انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ تہران یورپ کے ساتھ اپنے تعلقات میں 'نیا باب کھولنے' کے لیے تیار ہے۔
یورپی طاقتوں کے ساتھ جمعہ کی ملاقات ایران اور امریکہ کے درمیان چوتھے دور کے جوہری مذاکرات سے ایک ہفتے سے بھی کم وقت کے بعد ہو رہی ہے۔ تہران نے ان مذاکرات کو 'مشکل لیکن مفید' قرار دیا، اور ایک امریکی عہدیدار نے کہا تھا کہ مذاکرات نے واشنگٹن کی 'حوصلہ افزائی' کی ہے۔
عراقچی نے کہا ہےکہ جمعہ کے مذاکرات نائب وزرائے خارجہ کی سطح پر ہوں گے۔