سات ترقی یافتہ ممالک کے وزرائے خارجہ جمعرات کو کینیڈا میں ملاقات کر رہے ہیں دوسری طرف گذشتہ سات ہفتوں سے امریکہ کے اتحادیوں اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان یوکرین کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی اور محصولات کے نفاذ پر کشیدگی بڑھ رہی ہے ۔
برطانیہ، کینیڈا، فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان اور امریکہ پر مشتمل 7 ملکی گروپ کے وزراء اور یورپی یونین کے نمائندے، کیوبیک کی پہاڑیوں میں واقع دور دراز سیاحتی قصبے لا مالبائی میں دو روزہ اجلاس کررہے ہیں۔ ماضی میں یہ اجلاس عموماً ان ممالک کو درپیش مسائل پر اتفاق رائے کے ساتھ ہوتے رہے ہیں ۔
واشنگٹن کے شراکت داروں کے لیے ایجنڈے میں سب سے اہم بات، امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کی جدہ، سعودی عرب میں یوکرین کے ساتھ منگل کو ہونے والی اور یوکرین کی طرف سے 30 روزہ جنگ بندی معاہدے کی حمایت پر مبنی بات چیت کے بارے میں، بریفنگ لینا ہوگی۔
لیکن کینیڈا کی صدارت میں پہلے جی 7 اجلاس سے پہلے، ایک جامع حتمی بیان تیار کرنا مشکل ثابت ہوا ہے۔
امریکہ کے فیصلے نے، جس کے تحت تمام اسٹیل اور ایلومینیم کی درآمدات پر 25 فیصد محصولات عائد کیے گئے، فوری طور پر کینیڈا اور یورپی یونین کی جانب سے جوابی اقدامات کو جنم دیا، جس سے کشیدگی واضح ہو گئی ہے۔
واشنگٹن نے یوکرین کے حوالے سے زبان پر سرخ لکیریں عائد کرنے کی کوشش کی ہے، روس کےپابندیوں سے پاک شپنگ نیٹ ورک' نام نہاد شیڈو فلیٹ' پر ایک علیحدہ اعلامیہ کی مخالفت کی اور چین کے لئے سخت زبان کا مطالبہ کیا ہے۔
پیر کو روبیو نے خبردار کیا تھا کہ واشنگٹن ایسی زبان نہیں چاہتا جو روس اور یوکرین کو مذاکرات کی میز پر لانے کی کوششوں کو نقصان پہنچا سکے۔ بدھ کو صحافیوں سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایک اچھا جی 7 بیان یہ تسلیم کرے گا کہ امریکہ نے جنگ ختم کرنے کے عمل کو آگے بڑھایا ہے۔
جی 7 کے سفارت کاروں نے کہا کہ جدہ سے مثبت نتیجہ کم از کم یوکرین پر بات چیت کو آسان بنا سکتا ہے۔
20 جنوری کو ٹرمپ کے دوبارہ عہدہ سنبھالنے کے بعد سے، امریکہ نے یوکرین کے لئے دوستانہ روّیہ محدود کر دیا اور جنگ کو جلد ختم کرنے کے معاہدے پر زور دیا ہے۔ ٹرمپ نے،یورپی شراکت داروں سے زیادہ بوجھ اٹھانے کا مطالبہ کیا اور واشنگٹن کے ماسکو کے ساتھ تعلقات کو گرم کیا ہے۔
یہاں تک کہ امریکی سلامتی کی ضمانتوں پر بہت زیادہ انحصار کرنے والا ملک 'جاپان' بھی ٹرمپ کے نشانے پر آ گیا ہے۔
ایک یورپی سفارت کار نے طنزیہ انداز میں کہا ہے کہ "یہ بہت مشکل ہے۔ شاید ہمیں جی 8 کا انتظار کرنا چاہیے۔"
ٹرمپ نے تجویز دی ہے کہ جی 8 کو ماسکو کی واپسی کے ساتھ بحال کیا جا سکتا ہے، جس کی رکنیت 11 سال قبل کریمیا کے الحاق پر معطل کر دی گئی تھی۔
کہیں بھی امریکہ کے اتحادیوں کے لیے مشکلات کینیڈا سے زیادہ واضح نہیں ہوئیں۔
ٹرمپ کی جانب سے کینیڈا سے تمام درآمدات پر محصولات عائد کرنے کی دھمکیوں اور ملک کو 51ویں امریکی ریاست بنانے کے بارے میں ان کے مسلسل خیالات کی وجہ سے کینیڈا اور امریکہ کے درمیان تعلقات اپنی کم ترین سطح پر ہیں۔
روبیو نے صحافیوں کو بتایا کہ"ہم جی 7 میں ان تمام چیزوں پر توجہ مرکوز کریں گے۔ یہی اجلاس کا مقصد ہے۔ یہ اجلاس اس بارے میں نہیں ہے کہ ہم کینیڈا پر قبضہ کیسے کریں گے۔"
یہ بات اوٹاوا کو مطمئن نہیں کر سکتی۔ وزیر خارجہ میلانی جولی نے بدھ کو کہا کہ "میں،جی 7 میں جارحانہ موقف اختیار کروں گی۔ میں ہر ملاقات میں، میں محصولات کے مسئلے کو اٹھاؤں گی تاکہ یورپیوں کے ساتھ ردعمل کو مربوط کیا جا سکے اور امریکیوں پر دباؤ ڈالا جا سکے ۔
یورپی سفارت کاروں نے کہا کہ وہ جی 7 کا استعمال یہ جانچنے کے لیے کرنا چاہتے ہیں کہ روبیو کا امریکی خارجہ پالیسی پر کتنا اثر ہے۔
ٹرمپ نے یوکرین سے لے کر مشرق وسطیٰ کی صورتحال تک بات چیت میں محکمہ خارجہ سے غیر منسلک متعدد عہدیداروں کا استعمال کیا ہےلہٰذا اتحادی ،واشنگٹن سے آنے والے، کچھ غیر متوقع بیانات سے پریشان ہیں۔