امریکہ اور چین کے درمیان، زیادہ تر محصولات میں کمی پر مبنی، ایک تجارتی معاہدہ بدھ کے روز نافذ العمل ہو گیا۔ عالمی منڈیوں اور بین الاقوامی رسدی زنجیروں کو متاثر کرنے والا یہ معاہدہ ایک بے رحم تجارتی جنگ میں عارضی فائر بندی کی نمائندگی کرتا ہے ۔
واشنگٹن اور بیجنگ نے رواں ہفتے جنیوا میں منعقدہ مذاکرات کے بعد ایک معاہدے پر اتفاق کیا ہےجس کے تحت بھاری محصولات میں نمایاں کمی کی جائے گی۔
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے منگل کو فاکس نیوز پر نشر ہونے والے ایک انٹرویو میں کہا ہےکہ واشنگٹن، چین کے ساتھ ایک "بہت ہی مضبوط" تجارتی معاہدے کے منصوبے پر کام کر ر ہا ہے ۔اس معاہدے کے ساتھ چین کی معیشت امریکی کاروباروں کے لیے "کُھل جائے گی"۔
خلیجی دورے کے لئے جاتے ہوئے ایئر فورس ون میں امریکی نشریاتی اداروں سے بات چیت میں انہوں نے کہا ہےکہ "ہمارے پاس چین کے ساتھ ایک بہت ہی پائیدار معاہدے کا فریم موجود ہیں۔ لیکن اس معاہدے کا جو حصّہ سب سے دلچسپ ہے... وہ ہے چین کا امریکی کاروباروں کے لیے کھُلنا۔"
انہوں نے مزید کہا، "میرے خیال میں ہمارے لئے بھی اور چین کے لئے بھی جو چیز سب سے دلچسپ ہے وہ یہ کہ ہم چین کو کھولنے کی کوشش کر رہے ہیں۔" تاہم انہوں نے مزید تفصیلات فراہم نہیں کیں۔
ایشیائی حصص میں زیادہ تر اضافہ، محتاط اطمینان
بدھ کے روز ایشیائی حصص میں زیادہ تر اضافہ ہوا کیونکہ امریکہ اور چین کے درمیان تجارتی جنگ میں 90 دن کی عارضی جنگ بندی کے بعد علاقائی منڈیوں میں محتاط اطمینان کی لہر دوڑ گئی۔
جاپان کے بینچ مارک نکی 225 میں 0.8 فیصد کمی ہوئی اور یہ 37,874.59 پر بند ہوا۔ آسٹریلیا کا ایس اینڈ پی/اے ایس ایکس 200 0.1 فیصد کمی کے ساتھ 8,260.40 پر بند ہوا۔
جنوبی کوریا کا کوسپی 1.1 فیصد بڑھ کر 2,635.86 پر پہنچ گیا۔ ہانگ کانگ کا ہینگ سینگ 1.1 فیصد بڑھ کر 23,367.57 پر پہنچ گیا، جبکہ شنگھائی کمپوزٹ 0.1 فیصد بڑھ کر 3,377.75 پر بند ہوا۔
عالمی کاروبار اور سرمایہ کار امریکہ اور چین کے درمیان تجارتی جنگ بندی پر محتاط شکل میں مطمئن ہیں، کیونکہ اس بات پر غیر یقینی ہے کہ یہ صورتحال کتنی دیر تک جاری رہے گی اور آئندہ مہینوں میں محصولات کہاں تک جا سکتے ہیں۔
فچ ریٹنگز کے چیف اکانومسٹ برائن کولٹن نے کہا، "ایک مستقل معاہدے کی عدم موجودگی میں، محصولات کی شرحیں کہاں طے ہوں گی اور ان کا پہلے سے نافذ شدہ اثر ہمارے معاشی تخمینوں میں کلیدی عوامل رہیں گے۔"