اقوام متحدہ کی چھ ایجنسیوں کے سربراہان نے غزہ میں اسرائیل کی جاری ناکہ بندی اور حملوں کے تباہ کن اثرات پر خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ دنیا "ایسے جنگی جرائم کا مشاہدہ کر رہی ہے جو انسانی زندگی کی مکمل طور پر بے قدری کو ظاہر کرتے ہیں۔"
پیر کے روز اقوام متحدہ کے انسانی امور کے دفتر، اقوام متحدہ کے بچوں کے فنڈ، اقوام متحدہ کے پروجیکٹ سروسز کے دفتر (UNOPS)، فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کی ایجنسی (UNRWA)، عالمی خوراک پروگرام (WFP) اور عالمی ادارہ صحت (WHO) کے سربراہان کے مشترکہ بیان میں کہا گیا: "ایک ماہ سے زیادہ عرصے سے غزہ میں کوئی تجارتی یا انسانی امداد داخل نہیں ہوئی۔"
بیان میں کہا گیا: "2.1 ملین سے زیادہ لوگ محصور ہیں، بمباری اور بھوک کا شکار ہیں، جبکہ سرحدی گزرگاہوں پر خوراک، ادویات، ایندھن اور پناہ گاہ کی امداد جمع ہو رہی ہے۔"
ایجنسیوں نے مطابق حالیہ جنگ بندی ٹوٹنے کے بعد محض ایک ہفتے میں 1,000 سے زیادہ بچے ہلاک یا زخمی ہوئے — " جو کہ غزہ میں بچوں کی ایک ہفتے میں سب سے زیادہ ہلاکتیں ہیں۔"
بیان میں امدادی کوششوں کے خاتمے پر بھی روشنی ڈالی گئی اور کہا گیا: "چند دن پہلے تک، جنگ بندی کے دوران عالمی خوراک پروگرام کی مدد سے چلنے والی 25 بیکریاں آٹے اور گیس کی قلت کی وجہ سے بند ہو گئیں۔"
اقوام متحدہ کے عہدیداروں نے انسانی صورتحال کو بے مثال قرار دیتے ہوئے زور دیا: "ہم غزہ میں ایسے جنگی جرائم کا مشاہدہ کر رہے ہیں جو انسانی زندگی کی کھلم کھلا توہین ہیں۔"
مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ "نئے اسرائیلی بے دخلی کے احکامات نے لاکھوں فلسطینیوں کو ایک بار پھر نقل مکانی پر مجبور کر دیا ہے، جن کے پاس کوئی محفوظ جگہ نہیں۔"
بیان میں اس دعوے کو بھی مسترد کیا گیا کہ غزہ میں کافی امداد پہنچ رہی ہے، اور کہا گیا: "یہ دعویٰ کہ غزہ کے تمام فلسطینیوں کو کھانے کے لیے کافی خوراک دستیاب ہے، زمینی حقائق سے بہت دور ہے۔"
اکتوبر 2023 سے اب تک کم از کم 408 انسانی امدادی کارکن، جن میں 280 سے زیادہ UNRWA کے عملے شامل ہیں، ہلاک ہو چکے ہیں۔
اقوام متحدہ کے عہدیداروں نے عالمی حکومتوں پر زور دیا کہ وہ "انسانی قانون کی پاسداری کے لیے مضبوط، فوری اور فیصلہ کن اقدامات کریں۔" انہوں نے کہا: "شہریوں کی حفاظت، امداد کی فراہمی، یرغمالیوں کی رہائی اور جنگ بندی کی بحالی کی جائے۔"