صدر رجب طیب اردوان نے روس اور آذربائیجان کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے پیش نظر دونوں ممالک سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ انقرہ کے ماسکو اور باکو دونوں کے ساتھ 'گہرے اور اسٹریٹجک تعلقات' ہیں۔
صدر اردوان نے آذربائیجان سے واپسی پر طیارے میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انقرہ کی سب سے بڑی خواہش یہ ہے کہناخواہش کردہ واقعات ماسکو اور باکو کے تعلقات کو 'ناقابل تلافی نقصان' نہ پہنچائیں۔
آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان امن معاہدے پر بات کرتے ہوئے ایردوان نے کہا: 'ہم اس امن معاہدے کے ساتھ نئے اور تاریخی مواقع کے دروازے کھلنے کی تمنا کرتے ہیں۔'
مغربی آذربائیجان کو ناہچوان کے علاقے سے جوڑنے والی اسٹریٹجک راہداری زنگیزار جو چین سے ترکیہ اور روس تک ایک اہم رابطہ بننے والا ہے کے بارے میں بات کرتے ہوئے صدر ایردوان نے کہا کہ یہ راستہ نہ صرف آذربائیجان بلکہ پورے خطے کے لیے مواقع فراہم کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ انقرہ اس راستے کو ایک 'جغرافیائی-معاشی انقلاب' کا حصہ سمجھتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا۔اگرچہ آرمینیا نے ابتدائی طور پر زنگیزار راہداری کی مخالفت کی تھی، لیکن اب ایریوان اقتصادی انضمام میں شامل ہونے کے لیے زیادہ لچکداری کا مظاہرہ کر رہا ہے۔
واشنگٹن اور انقرہ کے درمیان ایف-35 طیاروں کی فراہمی کے مسئلے پر بات کرتے ہوئے، صدر اردوان نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ ٹرمپ کے دور میں ترکیہ کو ایف-35 طیاروں کی فراہمی شروع ہو جائے گی اور امید ظاہر کی کہ امریکی صدر 'ہمارے معاہدے کا احترام کریں گے۔'
انہوں نے کہا کہ ایف-35 کا مسئلہ ترکیہ کے لیے نہ صرف فوجی ٹیکنالوجی بلکہ عالمی پلیٹ فارمز، خاص طور پر نیٹو میں مضبوط شراکت داری کا معاملہ بھی ہے۔
صدر ایردوان نے کہا کہ خطے میں پائیدار امن و امان اسرائیل کی جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کی وجہ سے ناکام ہوا، اور انقرہ اس بار دوبارہ ایسے واقعات کو روکنے کے لیے کام کر رہا ہے۔
صدر نے کہا، ترکیہ کا ماننا ہے کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی نے غزہ میں بھی امن کے لیے دروازے کھول دیے ہیں، اور مزید کہا کہ حماس نے اس معاملے پر بارہا اپنی نیک نیتی کا مظاہرہ کیا ہے۔
شام کے بارے میں بات کرتے ہوئے ایردوان نے کہا کہ ترکیہ نے شام پر اپنی ریڈ لائن واضح کر دی ہیں اور کہا کہ ملک کسی بھی منصوبے کو برداشت نہیں کرے گا جو دہشت گرد گروہوں یا ان کے اتحادیوں کو قانونی حیثیت دے۔
انہوں نے مزید کہا: 'ہم شمالی شام میں آزاد تجارتی زونز، لاجسٹک مراکز، اور سرحدی بازاروں جیسے ماڈلز نافذ کر سکتے ہیں۔'
صدر الہام علی یف نے مجھے بتایا ہے کہ : میں شام کو قدرتی گیس کی ہر قسم کی مدد فراہم کرنے کے لیے تیار ہوں۔'