روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے اپنے پاکستانی ہم منصب کے ساتھ ملاقات میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کے معاملے پر کشیدگی کےحل کے لئے روس کی مدد کی پیشکش کی ہے۔
روس وزارت خارجہ نے لاوروف کی پاکستان کے نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار کے ساتھ بات چیت کے حوالے سے بروز اتوار ٹیلی گرام سے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ " نئی دہلی اور اسلام آباد کے درمیان کشیدگی میں نمایاں اضافے پر خاص توجہ دی جا رہی ہے" ۔
بیان کے مطابق "مذاکرات میں زور دیا گیا ہے کہ پاکستان اور انڈیا کی دو طرفہ طلب کی صورت میں 'روس '، 22 اپریل کو مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں دہشت گردی کے واقعے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال کے، سیاسی حل میں مدد کے لئے تیار ہے "۔
لاوروف کی ڈار کے ساتھ گفتگو ، بھارتی وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر سے بات چیت سے،دو دن بعد ہوئی ہے۔ سبرامنیم کے ساتھ ملاقات میں انہوں نے دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان اختلافات کے حل پر زور دیا تھا۔
واضح رہے کہ گذشتہ ہفتے پہلگام کے پہاڑی سیاحتی مقام پر مشتبہ مسلح افراد کے حملے میں کم از کم 26 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
دونوں ممالک مسلمان اکثریتی کشمیر پر حق کے دعوے دار ہیں اور یہ علاقہ کئی جنگوں، بغاوتوں اور سفارتی تنازعات کا مرکز رہا ہے۔
روس کئی دہائیوں سے بھارت کا سب سے بڑا اسلحہ فراہم کرنے والا ملک ہے اور نئی دہلی اور ماسکو کے تعلقات سوویت دور سے قریبی رہے ہیں۔
پہلگام حملے کے بعد دونوں ممالک نے جوابی اقدامات کا سلسلہ شروع کیا۔
بھارت نے پاکستان کے ساتھ اہم دریائی پانی کے معاہدے' سندھ طاس' کو معطل کر دیا اور واحد فعال زمینی سرحدی گزرگاہ بند کر دی۔ اتوار سے پاکستانیوں کو جاری کیے گئے ویزے بھی منسوخ کر دیئے گئے۔
پاکستان نے جوابی کاروائیوں میں بھارتیوں کو جاری کیے گئے ویزے منسوخ کر دیے، اپنی فضائی حدود بھارتی ایئر لائنز کے لیے بند کر دی، ہمسایہ ملک کے ساتھ تجارت معطل کر دی اور بھارت کے ساتھ شملہ معاہدہ معطل کر دیا۔ 1972 کا یہ معاہدہ خاص طور پر کشمیر کے تنازعے پر امن قائم کرنے اور تنازعات کو دو طرفہ طور پر حل کرنے کے لیے طے کیا گیا تھا۔
1947 میں برطانوی استبدادیت سے آزادی کے بعد بھارت اور پاکستان نے، سابق شاہی ریاست، کشمیر پر کئی جنگیں لڑیں۔ مقبوضہ اور آزاد کشمیر کے درمیان لائن آف کنٹرول کی وجہ سے کئی کنبے دو حصّوں میں بٹ گئے۔
بھارت کے زیر قبضہ علاقے میں، آزادی یا پاکستان کے ساتھ الحاق کے خواہاں،' کشمیری مزاحمت کار' 1989 سے مزاحمت جاری رکھے ہوئے ہیں۔
نئی دہلی نے مسلمان اکثریتی بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں تقریباً 500,000 فوجی تعینات کر رکھے ہیں۔
حالیہ ہفتوں میں مودی حکومت نے مسلم تنظیموں، ادب اور اسکولوں پر کریک ڈاؤن کو تیز کر دیا ہے، جس سے پورے خطے میں بے چینی پیدا ہو گئی ہے۔
اسی دوران، بھارت نے متنازعہ علاقے میں غیر کشمیریوں کو 82,000 ڈومیسائل سرٹیفکیٹ جاری کیے ہیں، جس سے جان بوجھ کر آبادیاتی تبدیلیوں کے خدشات پیدا ہو رہے ہیں۔
پہلگام حملے کے بعد، بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں 1,500 سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔
دریں اثنا، کئی بھارتی شہروں میں کشمیری مسلمانوں، خاص طور پر طالب علموں پر ہندو انتہا پسند گروہوں کے حملوں کی اطلاعات سامنے آئی ہیں۔