اقوام متحدہ کی فلسطینی پناہ گزین ایجنسی 'انروا' کے ایک عہدیدار نے کہا ہے کہ اسرائیلی ناکہ بندی کے گیارہ ہفتوں کے دوران غزہ میں غذائی قلت کی شرح میں اضافہ ہوا ہے اور اگر خوراک کی قلت جاری رہی تو یہ شرح تیزی سے بڑھ سکتی ہے ۔
جنیوا میں ایک پریس بریفنگ کے دوران 'انروا' کے ڈائریکٹر برائے صحت، 'آکی ہیرو سیٹا 'نے کہا ہے کہ"میرے پاس موجود اپریل کے آخر تک کے اعداد و شمار یہ ظاہر کرتے ہیں کہ غذائی قلت میں اضافہ ہو رہا ہے۔"
انہوں نے مزید کہا ہے کہ "تشویش یہ ہے کہ اگر خوراک کی قلت موجودہ شکل میں جاری رہی تو یہ تیزی سے بڑھے گی اور پھر ہمارے قابو سے باہر ہو جائے گی۔"
واضح رہے کہ اسرائیل نے 2 مارچ سے غزہ کی مکمل ناکہ بندی کر رکھی ہے۔
حکومت، انسانی حقوق اور بین الاقوامی رپورٹوں کے مطابق، اسرائیل نے غزہ کے لئے خوراک اور طبی و انسانی امداد کی ترسیل بند کر کے،علاقے میں پہلے سے موجود انسانی بحران کو مزید گہرا کر دیا ہے۔
پیر کے روز اسرائیل نے کرم ابو سالم کراسنگ کے ذریعے غزہ میں امداد کے نو ٹرک داخل ہونے کی اجازت دی لیکن امدادی کارکنوں کا کہنا ہے کہ صرف پانچ ٹرک داخل ہوئے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت نے غزہ میں داخل ہونے والی امداد کی مقدار پر تنقید کرتے ہوئے اسے انتہائی ناکافی قرار دیا۔
اقوام متحدہ کے امدادی سربراہ ٹام فلیچر نے کہا ہے کہ " اس ہنگامی ضرورت کے سامنے یہ امداد سمندر میں ایک قطرے تک کے برابر نہیں ہےلہٰذا کل صبح سے غزہ میں مزید امداد کےداخلے کی فوری اجازت دی جانی چاہیے ۔"
93 فیصد سے زائد فلسطینی شدید غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں۔
ایک عالمی بھوک مانیٹر نگ تنظیم نے کہا ہے کہ غزہ کی پوری آبادی قحط کے سنگین خطرے سے دوچار ہے۔ پانچ لاکھ افراد میں غذائی قلّت 'قحط زدگی' کی حد تک پہنچ گئی ہے۔تنظیم کا کہنا ہے کہ یہ اعداد و شمار ماہِ اکتوبر کی رپورٹ کے مقابلے میں صورتحال میں تیزی سے خرابی کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔
انٹیگریٹڈ فوڈ سکیورٹی فیز کلاسیفیکیشن (IPC) کی تازہ ترین جائزے کے بنیادی شواہد کے مطابق یکم اپریل سے 10 مئی تک کے عرصے کا تجزیہ کیا گیا اور ستمبر کے آخر تک صورتحال کے اس طرح جاری رہنے کا اندازہ لگایا ہے۔
IPC کے تجزیے کے مطابق 1.95 ملین افراد بالفاظِ دیگر اسرائیلی ناکہ بندی والے فلسطینی علاقے کی 93 فیصد آبادی، شدید غذائی قلّت کے درجے پر زندگی گزار رہی ہے ہیں۔ ان میں سے 2 لاکھ 44 ہزار افراد سب سے شدید یا "تباہ کن" سطح پر ہیں۔
IPC کے تجزیے نے پیش گوئی کی کہ ستمبر کے آخر تک 4,70,000 افراد، یا آبادی کا 22 فیصد، تباہ کن زمرے میں آ جائیں گے، جبکہ ایک ملین سے زیادہ افراد "ہنگامی" سطح پر ہوں گے۔
تنظیم نے کہا ہے کہ "زندگیاں بچانے، مزید بھوک اور اموات کو روکنے اور قحط سے بچنے کے لیے فوری کاروائی کی ضرورت ہے۔"
اسرائیلی افواج نے تباہ شدہ فلسطینی علاقے پر مہلک حملے کیے ہیں اور 18 مئی کو شمالی اور جنوبی غزہ میں ایک وسیع پیمانے کی زمینی کارروائی شروع کی، جسے "آپریشن گوڈیون کے رتھ" کا نام دیا گیا ہے۔
غزہ میں اسرائیلی خونریزی گزشتہ ہفتے سے عروج پر ہے۔ یہ خونریزی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورہ مشرق وسطیٰ کے ساتھ شروع ہوئی اور مستقل جاری ہے۔
اسرائیلی حملوں میں ہلاک ہونے والے افراد میں زیادہ تر تعداد عورتوں اور بچّوں کی ہے۔
اسرائیل کی طرف سے فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے بارہا کہا ہے، "غزہ میں کوئی جگہ محفوظ نہیں ہے۔"