غّزہ جنگ
8 منٹ پڑھنے
اسرائیل حامی لابی، امریکی درسگاہوں میں، آزادی تقریر کی تعریف کو تبدل کر رہی ہے
اے ڈی ایل کی طرح اسرائیل حامی ایڈووکیسی گروپ امریکی یونیورسٹیوں کے ساتھ براہ راست شامل ہوتے ہیں، پرو-فلسطینی سرگرمیوں پر نشانہ بنانے والی پالیسیاں شہری حقوق اور درسگاہوں پر حکومتی اثر و رسوخ کے بارے میں خدشات پیدا کر رہی ہیں۔
اسرائیل حامی لابی، امریکی درسگاہوں میں، آزادی تقریر کی تعریف کو تبدل کر رہی ہے
Just two days ahead of Khalil’s arrest, ADL CEO Jonathan Greenblatt publicly stated that he had been “engaging directly” with Colombia University officials to address efforts to combat anti-Semitism on campus. / Reuters
14 مارچ 2025

"تمام غیر ملکی رہائشی جو جہاد کے حامی مظاہروں میں شامل ہوئے، ہم آپ کو خبردار کرتے ہیں: 2025 تک، ہم آپ کو تلاش کریں گے اور ملک بدر کر دیں گے"۔

یہ الفاظ وائٹ ہاوس کی،امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے 29 جنوری کو دستخط کردہ ایگزیکٹو آرڈر سے متعلقہ،  ویب سائٹ پر رقم  ہیں ۔ امریکی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اس حکم کی رُو سے کالجوں اور عوامی مقامات پر صیہونی  دشمنی کے خلاف"زبردست اور بے مثال اقدامات" کئے جائیں گے۔

حقائق نامے میں، ٹرمپ نے ان"غیر ملکی رہائشیوں" پر الزام لگایا کہ وہ "حماس کے اجتماعی ریپ، اغوا، اور قتل"کا جشن منا رہے ہیں، عبادت گاہوں کو روک رہے ہیں، عبادت گزاروں پر حملہ کر رہے ہیں، اور امریکی یادگاروں اور مجسموں کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ اس حکم کی  زبان اور اس کا نفاذ امریکہ میں فلسطین  حامی سرگرمیوں اور آزادی اظہار کے حقوق پر براہ راست حملہ ہے۔

نشانہ بنایا گیا کریک ڈاؤن؟

حکم پر دستخط ہونے کے چند ہفتوں بعد، 10 مارچ کو، نیویارک شہر کی کولمبیا یونیورسٹی کے ایک فلسطینی طالب علم کےرکن محمود خلیل کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔

ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر خلیل کو"ریڈیکل فارن پرو-حماس اسٹوڈنٹ" قرار دیا، حالانکہ خلیل، گرین کارڈ کا حامل امریکی رہائشی ہے اور اس  کا کوئی مجرمانہ ریکارڈ بھی نہیں ہے۔

بین الاقوامی سطح پر شہری آزادیوں کی تنظیموں، وکلاء اور ماہرین تعلیم نے خلیل کی گرفتاری کی مذمت کی اور اسے پہلے ترمیمی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔

اب تک، ہوم لینڈ سیکیورٹی ڈیارٹمنٹ (DHS) نے خلیل کی گرفتاری کے لیے صرف مبہم وجوہات پیش کی ہیں۔

سوشل میڈیا ایکس  پر ایک پوسٹ میں الزام لگایا گیا  ہےکہ "خلیل نے حماس، جو ایک نامزد دہشت گرد تنظیم ہے، کی سرگرمیوں کی قیادت کی ہے"۔

فیصلہ ایک شاذ و نادر استعمال ہونے والے امیگریشن قانون پر مبنی ہے جو سیکریٹری آف اسٹیٹ کو اختیار دیتا ہے کہ وہ کسی غیر ملکی شہری کی موجودگی کو امریکی خارجہ پالیسی کے لیے "ناموافق" قرار دےکر  ملک بدری کا اہل بنا دے۔

تاہم، وائٹ ہاؤس کی جانب سے خلیل کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کیا گیا، اور ایک وفاقی جج نے قانونی بنیادوں کی کمی کی وجہ سے ان کی ملک بدری کو عارضی طور پر روک دیا ہے۔

اینٹی ڈی فیمیشن لیگADL کا اثر و رسوخ

وفاقی حکومت فلسطین کے حامی طلبہ کی سرگرمیوں کے خلاف جارحانہ موقف اختیار کر رہی ہے اور اس حکمت عملی  پر طاقتور اسرائیل نواز لابی تنظیموں کا اثر نمایاں ہے۔

ان میں سے ایک نمایاں تنظیم اینٹی ڈی فیمیشن لیگ (ADL) ہے، جو امریکی داخلی پالیسی میں اسرائیل کی حمایت کرنے والی سب سے بڑی تنظیم کے طور پر جانی جاتی ہے۔

خلیل کی گرفتاری سے دو دن پہلے، ADL کے سی ای او 'جوناتھن گرین بلیٹ' نے عوامی طور پر کہا  تھاکہ وہ صیہونی دشمنی کے خلاف اقدامات کے لیے کولمبیا یونیورسٹی کے حکام کے ساتھ "براہ راست رابطے" میں ہیں۔

گرین بلیٹ نے 8 مارچ کو X پر لکھا  کہ "کل میں کیمپس گیا اور یہودی طلبہ سے ملاقات کی اور ہراسانی اور دھمکیوں کی کہانیاں سنیں"۔

انہوں نے مزید کہا کہ کولمبیا کو ریاستی اور وفاقی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ زیادہ فعال تعاون کرنا چاہیے، تاکہ سامیت دشمنی کے مرتکب طلبہ کو یونیورسٹی کی طرف سے تادیبی کارروائی کے علاوہ "قانون توڑنے کے حقیقی نتائج" کا سامنا کرنا پڑے۔

دو دن بعد، خلیل کو گرفتار کر لیا گیا، جس سے یہ سوالات اٹھے کہ آیا بیرونی لابی کی کوششوں نے فلسطین  حامی سرگرمیوں کے خلاف انتظامیہ کے ردعمل کو متاثر کیا ہے؟

خفیہ تادیبی نظام

گرفتاری کے وقت، خلیل پہلے ہی کولمبیا کے دفتر برائے ادارہ جاتی مساوات (OIE) کی تحقیقات کے تحت تھے ۔ یہ ایک خفیہ تادیبی ادارہ جو ہراسانی اور امتیازی شکایات کو حل کرنے کے لیے قائم کیا گیا تھا۔

تاہم، متعدد رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ OIE امتیاز کو حل کرنے والے غیر جانبدار ادارے کے بجائے، اسرائیل۔فلسطین تنازع پر طلبہ کی مخالفت کو نشانہ بنانے والے، داخلی استغاثہ کے نظام کی طرح کام کرتا ہے۔

4 مارچ کو، ڈراپ سائٹ نیوز کی ایک تحقیق سے انکشاف ہوا کہ بدعنوانی کے الزام میں طلبہ کو اپنے خلاف ثبوت دیکھنے کے لیے غیر افشاء معاہدوں (NDAs) پر دستخط کرنے کی ضرورت تھی۔ ان خفیہ معاہدوں کے ساتھ  انہیں اپنے کیسوں پر عوامی طور پر بات کرنے سے مؤثر طریقے سے روکا گیا۔

یہ حقیقت کہ OIE نے شہری حقوق کے قانون کی تشریح کی، اسرائیل پر تنقید کو "امتیازی ہراسانی" کی ایک شکل کے طور پر سمجھا، ADL کی کلیدی پالیسی اہداف کے ساتھ اس کے گٹھ جوڑ  کے بارے میں بہت کچھ کہتی ہے۔

ADL وہی تنظیم ہے جو IHRA (انٹرنیشنل ہولوکاسٹ ریمیمبرنس الائنس) کی، اسرائیل مخالف کو سامیت دشمنی کے مساوی قرار دینے کی وجہ سے شدید تنقید کا سامنا کرنے والی، متنازعہ تعریف کو اپنانے کی پُرزور حامی رہی ہے۔

فلسطین اور مشرق وسطیٰ کے امریکی مورخ 'زکری فوسٹر' نے ٹی آر ٹی 'TRT کو بتایا کہ "ADL طویل عرصے سے اسرائیل پر تنقید کو سامیت دشمنی کے ساتھ خلط ملط کر رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب  بہت سے تجزیہ کار اور رپورٹر ADL کے ڈیٹا پر بھی بھروسہ نہیں کرتے کیونکہ وہ فلسطین کے حامی مظاہروں اور نسل کشی کے خلاف مظاہروں کو سامیت دشمنی کے ساتھ جوڑتے ہیں"۔

فوسٹر کا کہنا ہے کہ اس اثر و رسوخ نے کولمبیا یونیورسٹی کے طلبہ کی سرگرمیوں پر قابو پانے کے طریقے کو براہ راست شکل دی ہے۔

انہوں نے کہا کہ "یہ انتہائی خوفناک ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ اب کولمبیا میں، نسل کشی کے مقدمے میں ایک نسل پرست ریاست پر جائز تنقید ، قابل قبول نہیں ہے"۔

عوامی ریکارڈ اس بات کی تصدیق کرتے ہیں  کہ IHRA کی متنازعہ تعریف ایک خطرناک اور سیاسی  اقدام ہے اور اس تعریف کے نفاذ کے لئے  ADL نے امریکی قانون سازوں پر فعال طور پر دباؤ ڈالا ہے ۔

ڈراپ سائٹ نیوز کی رپورٹ کے مطابق، کولمبیا میں OIE نے طلبہ کو صرف پوسٹر لگانے، سوشل میڈیا پوسٹیں شیئر کرنے، مظاہروں کا انعقاد کرنے، اسرائیل کی مذمت کرنے اور اس کے اقدامات کو نسل کشی قرار دینے کے لیے نشانہ بنایا۔

کولمبیا کے ایک طالب علم نے نیوز ویب سائٹ کو بتایا  کہ"پوسٹروں پر لکھا تھا 'اسرائیل کی مذمت کریں' اور 'اسرائیل ایک دہشت گرد ریاست ہے'  ۔ اب مجھے بتایا جا رہا ہے کہ کولمبیا کے مطابق یہ نعرے شہری حقوق کے قانون کے تحت امتیازی ہراسانی کے زمرے میں آتےہیں۔

 ADL کی نگرانی کی تاریخ

کیمپس کی پالیسی کو تشکیل دینے میں ADL کا کردار نگرانی اور اثر و رسوخ کی کارروائیوں کی ایک طویل تاریخ کا ہاتھ ہے۔

1970 کی دہائی سے، تنظیم نے "نئی سامیت دشمنی" کے تصور کو فروغ دیا ہے، جو اسرائیل مخالف جذبات اور اسرائیل پر بعض تنقیدوں کو سامیت دشمنی کی شکلوں کے طور پر درجہ بندی کرتا ہے۔

2022 میں، گرین بلیٹ نے خود اعلان کیا کہ ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے، جس پر متعدد یہودی گروپوں اور ADL کے کچھ عملے کے ارکان کی جانب سے تنقید کی گئی۔

"اسرائیل مخالف جذبات سامیت دشمنی ہیں"، گرین بلیٹ نے ADL کے ورچوئل نیشنل لیڈرشپ سمٹ میں ایک تقریر کے دوران کہا کہ"اسرائیل مخالف جذبات ایک نظریہ کے طور پر غصے پر مبنی ہیں۔ یہ ایک تصور پر مبنی ہے: دوسرے لوگوں کی نفی، ایک ایسا تصور جو جدید گفتگو کے لیے اتنا ہی اجنبی ہے جتنا کہ سفید فام بالادستی" ۔

ان کی تقریر نے اسٹوڈنٹس فار جسٹس ان فلسطین اور جیوش وائس فار پیس کو "ریڈیکل لیفٹ"انتہا پسند قرار دیا، یہ دلیل دیتے ہوئے کہ وہ دائیں بازو کی عکاسی کرتے ہیں۔ ان دونوں گروپوں کو 2024 سے کولمبیا یونیورسٹی میں تقریبات کی میزبانی سے روک دیا گیا ہے۔

ADL کی ویب سائٹ کھلے عام بیان کرتی ہے کہ یہ "دو طرفہ وکالت" کے ذریعے وفاقی، ریاستی اور مقامی سطحوں پر پالیسی سازوں کے کام کو تشکیل دیتی ہے۔

مزید برآں، تنظیم نے اپنی لابنگ کی کوششوں میں نمایاں اضافہ کیا اور 2004 میں اپنی پالیسی کے اخراجات میں بھی  94 فیصد اضافہ کیا  جس سے اس کے کل لابنگ اخراجات 1.4 ملین ڈالر تک پہنچ گئے۔ اس سب  کا مقصد ایک "قانون سازی کے ایجنڈے" کو آگے بڑھانا تھا۔

یہ کوششیں ADL کے ماضی کے تنازعات کے پس منظر میں سامنے آتی ہیں، جن میں 1993 کا ADL جاسوسی اسکینڈل بھی شامل ہے، جس میں تنظیم کو 10,000 سے زیادہ افراد اور 950 تنظیموں کی غیر قانونی نگرانی کرتے ہوئے پکڑا گیا، جن میں عرب۔امریکی گروپوں، سیاہ فام شہری حقوق کی تنظیموں جیسے NAACP، بائیں بازو کے کارکن، نسل پرستی مخالف منتظمین، اور یہاں تک کہ ترقی پسند یہودی گروپ شامل ہیں۔

کولمبیا یونیورسٹی اور فلسطین  حامی سرگرمیوں پر جاری کریک ڈاؤن امریکی کیمپس پالیسیوں، آزادی اظہار، اور شہری حقوق کے نفاذ پر اسرائیل نواز لابی کے اثر و رسوخ کی حد کے بارے میں پریشان کن سوالات اٹھاتا ہے۔

سامیت دشمنی کے خلاف جنگ اور سیاسی اختلاف کو دبانے کے درمیان لکیر خطرناک حد تک دھندلا رہی ہے۔

دریافت کیجیے
لوور میوزیم میں تاریخی تزئین و آرائش: "مونا لیزا" کے لئے خصوصی کمرہ
قیدیوں کی زبانی،الاباما جیل کہانی
ہاتشیپسوت کے تاریخی نوادرات
چار سو سال پرانا آشوری بازار
محبت کیا ہے؟
ترک فنکار، زنزیبار کی سمندری معیشت کو فنون کے ذریعے جانبرکر رہے ہیں
داتچہ میں عہدِ عثمانیہ کا غرق شدہ  بحری جہاز  17ویں صدی کی بحری تاریخ پر روشنی ڈال رہاہے
عہدِ عثمانیہ میں رمضان اور حضوری   دروس
ترک ڈرامے دنیا میں ترکیہ کے چہرے کو بدل رہے ہیں
آزادی فلسطین کی حامی وکیل عائشہ نور
ڈنمارک  کا آرکٹک سمندر  میں اپنے وجود  کو مضبوطی دلانے کے لیے 2 بلین ڈالر کی فوجی امداد کا اعلان
بنگلہ دیش کی طرف سے  ہندوستانی سیاست دان کی طرف سے اقوام متحدہ کے امن مشن کے مطالبے کی مذمت
ہیضے نے سوڈان کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے تو جاری جھڑپوں کے دوران 1200 سے زیادہ افراد ہلاک ہو گئے
یوکرین نے مغرب سے جوہری ہتھیار حاصل کیے تو روس 'تمام ہتھیار' استعمال کرے گا: پوتن
آئی سی سی چیف:جنگی جرائم کی عدالت خطرے میں ہے
TRT گلوبل چیک کریں۔ اپنی رائے کا اشتراک کریں!
Contact us