لیبیا کے وزیر اعظم عبدالحمید دبیبہ نے منگل کے روز جاری کردہ بیان میں کہا ہےکہ طرابلس میں مسلح جھڑپوں کے بعد امن و امان بحال کر دیا گیا ہے۔
ایک ہنگامی طبی سروس نے 'اے ایف پی' خبر ایجنسی کو بتایا ہےکہ ان جھڑپوں میں کم از کم چھ افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔ اس سے قبل مقامی ذرائع ابلاغ کی خبر میں کہا گیا تھا کہ مرنے والوں میں ایک مسلح گروپ کا رہنما بھی شامل ہے۔
ایمرجنسی میڈیسن اینڈ سپورٹ سینٹر نے کہا ہےکہ "ابو سلیم کے علاقے میں جھڑپوں کے مقامات سے چھ لاشیں برآمد کی گئی ہیں۔"
لیبیا ذرائع ابلاغ کے مطابق طرابلس کے خاص طور پر صلاح الدین اور ابو سلیم کے علاقوں میں یہ تشدد پیر کے روز، صدارتی کونسل کے شعبہ 'استقرار تعاون' کے سربراہ عبدالغنی الککلی کی موت کی خبر کے بعد، شروع ہوا ۔
دبیبہ نے ایکس سے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ "میں وزارت داخلہ، دفاع اور شہری تحفظ کے تمام ارکان کو دارالحکومت میں امن و امان بحال کرنے اور ریاستی بالادستی قائم کرنے میں بڑی کامیابی حاصل کی ہے اور اس کامیابی پر انہیں خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔"
انہوں نے مزید کہا ہے کہ "آج جو کچھ حاصل ہوا ہے وہ اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ قانونی ریاستی ادارے قوم کی حفاظت اور اس کے شہریوں کی عزت و وقار کو برقرار رکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔"
وزیر اعظم نے "غیر منظم گروہوں کے خاتمے پر زور دیا اور کہا ہے کہ لیبیا میں صرف ریاستی اداروں کے لیے جگہ ہے اور قانون کے سوا کسی کو بالادستی حاصل نہیں ہے۔اس وقت ہمیں اسی اصول کو مضبوط کرنا چاہیے"۔
مقامی میڈیا، بشمول لیبیا الاحرار ٹی وی، نے ککلی کی موت کے بعد دارالحکومت میں وقفے وقفے سے فائرنگ کی اطلاع دی اور کہا ہے کہ وزارت دفاع کے ماتحت " 444ویں بریگیڈ" بھی ملیشیا فورسز کے ساتھ جھڑپوں میں شامل ہو گیا ہے۔
لیبیا کی وزارت دفاع نے اپنی افواج کے ابو سلیم کے علاقے پر مکمل کنٹرول کی تصدیق کی اور کہا ہے کہ جھڑپوں پر قابو پانے کے لیے ہمارافوجی آپریشن "کامیابی کے ساتھ مکمل ہو گیا ہے"۔
واضح رہے کہ لیبیا، 2022 سے جاری سیاسی تقسیم کی وجہ سے، وقتاً فوقتاً سکیورٹی بحرانوں کا سامنا کر رہا ہے۔
دو متحارب حکومتیں اقتدار کی دعوے دار ہیں۔ ایک بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ قومی اتحاد حکومت، جس کی قیادت دبیبہ طرابلس میں کرتے ہیں اور جو مغربی علاقے کو کنٹرول کرتی ہے، اور دوسری اس کے متوازی حکومت، جس کی قیادت اسامہ حماد کرتے ہیں، جو ایوان نمائندگان کی طرف سے مقرر کی گئی ہے اور مشرقی علاقوں اور جنوبی شہروں کے کچھ حصوں کو کنٹرول کرتی ہے۔
اقوام متحدہ کی زیرِ قیادت متوقع قومی انتخابات کے انعقاد کے لئے کئی برسوں سے جاری کوششیں جمود کا شکار ہیں جس کی وجہ سے ملک کی سیاسی تقسیم اور مسلح تنازعات طُول پکڑتے جا رہے ہیں۔