امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ واشنگٹن کا ، ایران کے جوہری اور انٹیلی جنس تنصیبات پر اسرائیلی حملوں سے "کوئی تعلق نہیں" ہے لہٰذا اگر ایران نے امریکہ پر حملہ کیا تو اسے امریکی فوج کی "پوری طاقت" کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اسرائیل کے حملے، جو جمعہ کی صبح شروع ہوئے، نے ایرانی جوہری اور فوجی مقامات کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے، جن میں اعلیٰ فوجی کمانڈرز اور جوہری سائنسدان شامل ہیں، تہران کے مطابق۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے "آیت اللہ حکومت کے ہر ہدف" کو نشانہ بنانے کا عزم ظاہر کیا ہے، جبکہ ایران نے مہلک میزائل حملوں کے ساتھ جوابی کارروائی کی ہے۔
اگرچہ ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ اسرائیلی حملے سے پہلے ہی سے آگاہ تھے لیکن اتوار کی صبح اپنے ٹروتھ سوشل پلیٹ فارم سے جاری کردہ بیان میں انہوں نے کہا ہےکہ "ایران پر اسرائیلی حملے سے امریکہ کا کوئی تعلق نہیں ہے"۔
انہوں نے کہا ہے کہ"اگر ایران کی طرف سے ہم پر کسی بھی طرح یا کسی بھی شکل میں حملہ کیا گیا تو امریکی مسلح افواج کی پوری طاقت اور شدت اس پر ایسے نازل ہو جائے گی کہ جس کی اس سے پہلے کوئی مثال نہ ملتی ہو"۔
انہوں نے مزید کہا ہے کہ "ہم ایران اور اسرائیل کے درمیان آسانی سے ایک معاہدہ کر سکتے ہیں اور اس خونریز تنازعے کو ختم کر سکتے ہیں"۔
ٹھوس ثبوت
ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے اتوار کو جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ تہران کے پاس اس بات کے ثبوت موجود ہیں کہ امریکی افواج نے اس ہفتے اسرائیل کی جانب سے تہران پر شروع کی گئی شدید بمباری مہم کی حمایت کی ہے۔
عراقچی نے سرکاری ٹی وی پر نشر ہونے والی غیر ملکی سفیروں کے ساتھ ایک ملاقات میں کہا ہے کہ "ہمارے پاس اس بات کے ٹھوس ثبوت موجود ہیں کہ امریکی فوج نے اور خطے میں موجود امریکی اڈوں نے صیہونی حکومت کے حملوں کی حمایت کی ہے"۔
اس سے پہلے جمعہ کو امریکی صدر نے تہران پر زور دیا تھا کہ یا تو وہ ایک معاہدہ کرلے یا پھر اسرائیل کے "مزید وحشیانہ" حملوں کے سامنے کے لئے تیار رہے۔
واضح رہے کہ صدر ٹرمپ نے 2018 میں اپنے پہلے دورِ صدارت کے دوران، سابق صدر باراک اوباما کے ایران کے ساتھ طے کردہ جوہری معاہدے کو،یک طرفہ شکل میں ختم کر دیا اور پابندیاں دوبارہ عائد کر دی تھیں۔