سیاست
6 منٹ پڑھنے
لاس اینجلس میں احتجاج اور کرفیو، ماحول آنسو گیس کے دھوئیں سے بوجھل
لاس اینجلس آنسو گیس کے دھوئیں اور کرفیو کی لپیٹ میں۔ ماؤں کی چیخوں سے گونجتا شہر میدان جنگ کا نقشہ پیش کر رہا ہے۔
لاس اینجلس میں احتجاج اور کرفیو، ماحول آنسو گیس کے دھوئیں سے بوجھل
Protesters are seen outside the Federal Building in Downtown LA, with National Guards in backdrop [Sadiq S Bhat] / TRT World
12 جون 2025

لاس اینجلس، کیلیفورنیا —

آئیے شہر کا حال دیکھیں ۔۔۔سورج کی کرنیں المیڈا اسٹریٹ پر دھول کے بادلوں کو چیرتی ہوئی نکل رہی ہیں۔جب مظاہرین میں سے کوئی کوڑے دان کو لات مار کے اُلٹا دیتا ہے تو اس کے پیدا کردہ شور سے ڈر کر کبوتر اُڑنا شروع ہو  جاتے ہیں ۔

امریکہ کے دوسرے سب سے بڑے شہر کی خاموشی ٹوٹ چکی ہے۔ ہر طرف بے چینی پھیلی ہوئی ہے۔ بویل ہائٹس سے وینس تک، لاس اینجلس تبدیل ہو چکا ہے۔ شہر، بے سکونی اور بے چینی سےبھرے  آسمان تلے غصّے اور بے بسی سے  دانت پیس رہا ہے ۔

چار دن پہلے، تارکین وطن کے مختلف محلوں میں سرگوشیاں گونجنے لگیں کہ وفاقی امیگریشن اور کسٹم انفورسمنٹ (ICE) کے چھاپے شروع ہونے کو ہیں۔

زلزلے سے پہلے کے جھٹکوں کی طرح، یہ  سرگوشیاں ایک سے دوسرے تک پہنچ رہی تھیں۔ دروازے بند کر دیے گئے، پردے سختی سے کھینچ دیے گئے، اور نوجوانوں ماسک پہن کر  سڑکوں پر نکل آئے۔

جلد ہی، صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گورنر گیون نیوسم کی اجازت کے بغیر وفاقی فوجی کیلیفورنیا  بھیج دیئے۔ شہر میں ہلچل مچ گئی۔

بدھ کی صبح تک، شہر کی دیواروں پر،  پلوں کے نیچے، بند دکانوں کے شٹرز پر، سرکاری عمارتوں کے زینوں پر غرض ہر جگہ رنگوں سے نعرے  لکھے جا چُکے تھے۔ امن نہیں ہے۔ کوئی بھی ICE  نہیں چاہتا۔ خاموش نہیں رہا جائے گا۔ رنگ  ابھی بھی تازہ ہے۔

گزشتہ رات ایک پرائم ٹائم خطاب میں، گورنر نیوسم نے کیلیفورنیا کے باشندوں سے مضبوط رہنے کی اپیل کی اور صدر ٹرمپ کے حوالے سے کہا کہ "اس کے آگے جھکنا مت۔"یہ الفاظ ایک چنگاری کی طرح گرے۔

اسپرے  رنگوں سے لکھی گئی چیخیں

جب بدھ کو دن کے وقت  کرفیو اٹھایاگیا تو درجنوں خاندان ،جن کے پیارے چھاپوں میں گرفتار ہوئے تھے، وفاقی تھانوں  کے باہر جمع ہو گئے۔

انہوں نے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر ایک انسانی  زنجیر بنا رکھ تھی اور وہ نعرے لگا رہے تھے۔

”آزادی۔ انصاف۔آزادی“

پولیس نے لائن بنائی، لیکن کشیدگی اتنی  گہری تھی کہ اس کی شدّت محسوس کی جا سکتی تھی۔

اب بحری پیادے وفاقی عمارت کے باہر پہرہ دے رہے ہیں۔ ان کی رائفلیں ڈھالوں کے ساتھ ٹِکی ہوئی ہیں یعنی مکمل تیاری کی حالت میں  لیکن اُٹھی ہوئی نہیں ہیں۔

میجر جنرل اسکاٹ شرمین کے مطابق، جو کیلیفورنیا میں 4,700 وفاقی فوجیوں کی تعیناتی کی نگرانی کر رہے ہیں، لاس اینجلس میں تعینات 700 بحری پیادوں کو گرفتاری کے اختیارات نہیں ہیں، لیکن وہ افراد کو "قانون نافذ کرنے والے اداروں کے آنے تک حراست میں رکھ  سکتے ہیں۔"

فی الحال، ان کی موجودگی زیادہ تر بصری ہے۔ طاقت کا مظاہرہ: خاموش، بھاری، اور ناقابل انکار ہے۔

سیوِک سینٹر کے قریب، سٹی ہال اور مین اسٹریٹ برج کے قریب، ایک شخص پرانی لیکرز جرسی پہنے باڑ پر جھکا ہوا ہے، اس کی آواز دھیمی اور دبی دبی ہے۔

وہ  کہہ رہا ہے کہ آئی سی ای نے ہمارے گھر پر دھاوا بول دیا۔وہ اس کےچچا زاد  کو لے گئے ہیں۔  چھاپے سے پہلے نہ گھر کے دروازے پر کوئی دستک دی اور نہ ہی  کوئی  وارننگ۔

وہ دھندلائی ہوئی نگاہوں کے ساتھ کہہ رہا تھا" مجھے ایسے لگا جیسےسب کچھ  ختم ہو چکا ہو"۔

شہر بھر میں، نیشنل گارڈ کے فوجیوں کی تعداد دوگنی ہو چکی ہے۔ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ہم  لاس اینجلس کو "جلنے سے بچانے" کے لیے یہاں ہیں۔

لیکن آگ ، بند دکانوں کے شٹروں پر اسپرے پینٹ کیے گئے نعروں میں اور ویسٹ لیک میں جلائی گئی ایک ویمو کار کے ملبے میں دِکھائی دے رہی ہے ۔ مشین کا خون نہیں بہا لیکن پیغام کا بہا ہے۔

 

 

لاس اینجلس پولیس ڈیپارٹمنٹ (LAPD) اصرار  کے ساتھ کہہ رہا ہے کہ صورتحال قابو میں ہے۔ ڈسٹرکٹ اٹارنی نیتھن ہوچمین کہتے ہیں کہ مقامی قانون نافذ کرنے والے ادارے "کنٹرول میں ہیں۔"

لیکن جمعہ سے اب تک چلائی گئی 600 سے زیادہ ربڑ کی گولیوں کی آواز ان دونوں کے بیانات سے زیادہ بلند ہے۔

ٹرمپ نے نیوسم کو گرفتار کرنے کی دھمکی دی ہے اور ریاست پر مجرموں کو پناہ دینے کا الزام لگایا ہے۔

لیکن شہر  میں گونجگنے والی آوازیں صدر کے ٹویٹس سے زیادہ بلند ہیں۔ پچھلے چند دنوں میں، سینکڑوں لوگ وفاقی حراستی مرکز کے باہر جمع ہوئے ہیں۔

آنسو گیس چھوڑی گئی، اور فلیش بینگ دھماکوں کی طرح گونج اٹھے۔

لاس اینجلس کی میئر کیرن باس نے منگل کی رات دیر گئے بات کرتے ہوئے اس لمحے کو "مصنوعی ایمرجنسی" قرار دیا ہے۔ ان سب حوادث کے پیچھے چیختے سائرن ہوا کو چیر رہے تھے۔

انہوں نے کہا ہے کہ "یہ دانستہ شکل میں  کر بدنظمی پیدا کرنے کی کوشش ہے۔ جس کا مقصد لوگوں کو چٹان کے کنارے سے دھکا دینا ہے"۔

بے سکونی نیویارک، فلاڈیلفیا، ڈلاس، آسٹن، سان فرانسسکو تک پھیل چکی ہے۔ ہر شہر اب لاس اینجلس کی بے چینی کا اپنا رنگ  رکھتا ہے۔ ایسا رنگ  جو ICE چھاپوں کے خوف سے منسلک ہے۔

بدھ کی صبح ڈاؤن ٹاؤن لاس اینجلس  کی ہوا میں دھات اور راکھ کا ذائقہ گھُلا مِلا ہوا تھا۔ شہر ایک زندہ برقی  تار کی طرح محسوس ہورہا ہے، بجلی سے بھرا ہوا اور جھنجھناتا ہوا۔ یہ دو مقناطیسوں کے درمیان پھنس گیا ہے: وفاقی احکامات اور انسانی مایوسی۔

ایک طرف وقار کے لیے لڑائی ہے، دوسری طرف غلبے کے لیے۔

 

 

’انہیں جانے دو‘

طویل کرفیو کے بعد کھلنے والی کونے کی دکانوں کے اندر بات چیت سرگوشیوں میں تبدیل ہو رہی ہے۔ چھاپے، ملک بدری، بحری پیادے۔۔۔  لوگ اپنےٹلی فونوں  سے چمٹے ہوئے  ہیں اور  خبروں یا خاموشی کا انتظار کر رہے ہیں۔

دوپہر تک، ہال آف جسٹس کے باہر ایک اور احتجاجی مظاہرے  کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔ پچھلے چند دنوں سےپہلے خاموش ہوتی ہے  پھر ایک ڈھول کی تھاپ سنائی دیتی ہے، نعروں کی گونج، اور ایسے نشانات اٹھائے جاتے ہیں جن پر صرف یہ لکھا ہوتا ہے: انہیں جانے دو۔

امریکہ کے امیگریشن کے میدان جنگ کے مرکز میں، لاس اینجلس صرف ایک محاصرے میں آیا ہوا شہر نہیں لگتا۔ یہ قوم کے سامنے ایک آئینہ ہے۔

احتجاج کے قریب، گمشدہ پیاروں کی تصاویر کی ایک قطار کے ساتھ، ساٹھ کی دہائی کی ایک عورت نعرے لگاتے خاندانوں کو دیکھ رہی ہے۔ وہ ایک بیگ میں،  ابھی تک ان چھُوئی، پین ڈلسی کو مضبوطی سے تھامے ہوئے ہے ۔

”وہ ایک جگہ نظریں گاڑے ہوئے سرگوشی کر رہی ہے" وہ کہتے ہیں یہ قانون کے بارے میں ہےلیکن میں صرف ماؤں کو باڑوں میں چیختے ہوئے دیکھ رہی ہوں۔"

دریافت کیجیے
لوور میوزیم میں تاریخی تزئین و آرائش: "مونا لیزا" کے لئے خصوصی کمرہ
قیدیوں کی زبانی،الاباما جیل کہانی
ہاتشیپسوت کے تاریخی نوادرات
چار سو سال پرانا آشوری بازار
محبت کیا ہے؟
ترک فنکار، زنزیبار کی سمندری معیشت کو فنون کے ذریعے جانبرکر رہے ہیں
داتچہ میں عہدِ عثمانیہ کا غرق شدہ  بحری جہاز  17ویں صدی کی بحری تاریخ پر روشنی ڈال رہاہے
عہدِ عثمانیہ میں رمضان اور حضوری   دروس
ترک ڈرامے دنیا میں ترکیہ کے چہرے کو بدل رہے ہیں
آزادی فلسطین کی حامی وکیل عائشہ نور
ڈنمارک  کا آرکٹک سمندر  میں اپنے وجود  کو مضبوطی دلانے کے لیے 2 بلین ڈالر کی فوجی امداد کا اعلان
بنگلہ دیش کی طرف سے  ہندوستانی سیاست دان کی طرف سے اقوام متحدہ کے امن مشن کے مطالبے کی مذمت
ہیضے نے سوڈان کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے تو جاری جھڑپوں کے دوران 1200 سے زیادہ افراد ہلاک ہو گئے
یوکرین نے مغرب سے جوہری ہتھیار حاصل کیے تو روس 'تمام ہتھیار' استعمال کرے گا: پوتن
آئی سی سی چیف:جنگی جرائم کی عدالت خطرے میں ہے
TRT گلوبل چیک کریں۔ اپنی رائے کا اشتراک کریں!
Contact us