یوکرین اور روس کے درمیان تین سال سے زائد عرصے کے بعد اور روس کے صدر ولادی میر پوتن کی شرکت کے بغیر پہلے براہِ راست مذاکرات ہونے جا رہے ہیں ۔
روس خبر رساں ایجنسی 'آر آئی اے نووستی' کے مطابق روسی وفد، یوکرین کے ساتھ ممکنہ جنگ بندی مذاکرات کے لئے، جمعرات کو ترکیہ پہنچ گیا ہے۔
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ پہلی، روس ۔ یوکرین براہِ راست امن بات چیت میں پیش رفت ہونے کی صورت میں وہ ترکیہ کا سفر کر سکتے ہیں۔
ٹرمپ نے قطر سے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ "اگر کچھ پیش رفت ہوئی تو میں جمعہ کو ترکیہ جا سکتا ہوں"۔
یوکرین قومی سلامتی و دفاعی کونسل کے عہدیدار 'آندری کووالینکو 'نے ٹیلیگرام سے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ صبح 10 بجے مذاکرات کےآغاز سے متعلق خبریں "ہمارے مذاکراتی نظامِ اوقات کے برعکس ہیں اور درست نہیں ہیں"۔
ترکیہ کے وزیر خارجہ خاقان فیدان نے جمعرات کو جاری کردہ بیان میں کہا تھا کہ استنبول میں متوقع مذاکرات ایک نیا باب کھول سکتے ہیں۔
نیٹو کے سربراہ مارک روٹے نے کہا ہے کہ"ترکیہ یہاں بڑا کردار ادا کر رہا ہے کیونکہ اس کے تمام متعلقہ شراکت داروں کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں اور اسے ایک سنجیدہ مقام سمجھا جاتا ہے۔"
یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے پوتن کو استنبول میں ذاتی ملاقات کا چیلنج دیا تھا، لیکن روس کے مذاکراتی وفد میں صرف نچلی سطح کی ٹیم شامل ہے۔
پوتن نے 15 مئی کو استنبول میں مذاکرات کی تجویز دی تھی، جو یوکرین اور یورپی ممالک کی جانب سے 30 روزہ غیر مشروط جنگ بندی کے مطالبے کے بعد سامنے آئی تھی۔
زیلنسکی نے اس تجویز سے اتفاق کیااور رواں ہفتےجاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ پوتن کی عدم موجودگی اُن کے حقیقی معنوں میں امن میں دلچسپی نہ رکھنے کی طرف اشارہ کرے گی۔
زیلنسکی نے کہا ہے کہ "یہ ان کی جنگ ہے... لہذا مذاکرات ان کے ساتھ ہونے چاہئیں۔"
کریملن نے جمعرات کو کہا ہےکہ پوتن نے مذاکرات سے قبل اپنے وزرائے خارجہ، دفاع، انٹیلیجنس اور فوجی سربراہان کے ساتھ ملاقات کی ہے۔
کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے کہا ہےکہ "ہمارے وفد کی استنبول روانگی سے پہلے، صدر پوتن نے یوکرین کے ساتھ مذاکرات کی تیاریوں پر ایک اجلاس کیاہے"۔
بدھ کی رات منعقدہ اجلاس میں روسی مذاکراتی ٹیم کے اراکین، وزیر خارجہ سرگئی لاوروف، وزیر دفاع آندرے بیلوسوف، روسی گارڈ کے سربراہ وکٹر زولوتوف، سیکورٹی کونسل کے سیکرٹری سرگئی شوئیگو، چیف آف جنرل اسٹاف ویلری گیراسیموف، اور فیڈرل سیکورٹی سروس کے سربراہ الیگزینڈر بورٹنیکوف نے شرکت کی تھی۔
پوتن نے بدھ کو استنبول میں یوکرین کے ساتھ براہِ راست مذاکرات کے لیے اپنے ملک کے وفد کی تشکیل کے حکم نامے پر دستخط کیے تھے۔
واضح رہے کہ فروری 2022 میں شروع ہونے والے حملے کے بعد سے ہزاروں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ روس نے یوکرین کے تقریباً پانچویں حصے پر قبضہ کر لیا ہے، جو دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ کے بدترین تنازعات میں سے ایک ہے۔
یورپ کی پابندیوں کی وارننگ
میڈنسکی کو، یوکرینی علاقے پر روس کے تاریخی دعووں کو آگے بڑھانے کے حوالے سے،بااثر سمجھا جاتا ہے۔
دیگر تین مذاکرات کاروں میں نائب وزیر خارجہ میخائل گالوزین، نائب وزیر دفاع الیگزینڈر فومین، اور روس کی جی آر یو فوجی انٹیلی جنس ایجنسی کے ڈائریکٹر ایگور کوستیوکوف شامل ہیں۔
یورپی رہنماؤں نے کہا ہے کہ اگر استنبول مذاکرات سے نتائج برآمد نہ ہوئے تو روس پر نئی پابندیاں جلدی عائد کی جائیں گی۔
مذاکرات سے ایک دن پہلے، زیلنسکی نے کہا ہےکہ وہ ماسکو کی نمائندگی کرنے والوں کی بنیاد پر یوکرین کے اگلے "اقدامات" کا فیصلہ کریں گے۔
زیلنسکی نے کہا ہے کہ"یوکرین کسی بھی مذاکراتی فارمیٹ کے لیے تیار ہے، اور ہم ملاقاتوں سے خوفزدہ نہیں ہیں۔ کل ترکیہ میں، میں دیکھوں گا کہ روس سے کون آتا ہے۔ پھر میں فیصلہ کروں گا کہ یوکرین کو کیا اقدامات کرنے چاہئیں۔"
روس اصرار کرتا ہے کہ مذاکرات میں تنازع کے "بنیادی اسباب" پر بات کی جائے، جن میں یوکرین سے "نازیوں کا خاتمہ " اور یوکرین کا غیر مسلح ہونا شامل ہیں۔
روس نے یہ بھی کہا ہے کہ یوکرین کو روسی افواج کے زیر قبضہ علاقے چھوڑنے ہوں گے۔
کیف نے کہا ہے کہ وہ اپنے علاقوں کو روسی تسلیم نہیں کرے گا، حالانکہ زیلنسکی نے تسلیم کیا ہے کہ یوکرین انہیں صرف سفارتی ذرائع سے واپس حاصل کر سکتا ہے۔
امریکہ کے وزیر خارجہ مارکو روبیو جمعہ کو استنبول میں ہوں گے۔ روبیو نے بدھ کو ترکیہ میں نیٹو اجلاس میں یوکرین کے وزیر خارجہ آندری سیبیگا سے ملاقات کی۔
اور امریکی کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بدھ کو اشارہ دیا تھاکہ وہ ترکیہ میں ثالث کا کردار ادا کر سکتے ہیں۔
ٹرمپ نے مشرق وسطیٰ کے دورے پر اپنے ساتھ موجود صحافیوں سے بات چیت میں کہا ہے کہ "مجھے نہیں معلوم کہ اگر میں وہاں نہ ہوا تو وہ (پوتن) وہاں ہوں گے یا نہیں"۔
انہوں نے کہاہے کہ "میں جانتا ہوں کہ وہ چاہتے ہیں کہ میں وہاں ہوں، اور یہ ایک امکان ہے۔ اگر ہم جنگ ختم کر سکتے ہیں، تو میں اس کے بارے میں سوچوں گا"۔