روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے کہا ہے کہ ایرانی معاشرہ ملک کی قیادت کے گرد مضبوط ہو رہا ہے اور غیر معمولی اسرائیلی حملوں کے باوجود ایران کی زیر زمین یورینیم افزودہ کرنے کی تنصیبات اب بھی برقرار ہیں۔
پیوٹن بدھ کے روز ایک ایسے وقت میں بات کر رہے تھے جب ٹرمپ نے دنیا کو یہ اندازہ لگا رکھا تھا کہ آیا امریکہ ایران کے "جوہری اور میزائل مقامات" پر اسرائیل کی بمباری میں شامل ہو جائے گا ۔
پیوٹن نے کہا کہ تمام فریقین کو کشیدگی کے خاتمے کے طریقوں پر غور کرنا چاہیے جس سے ایران کے پرامن جوہری طاقت کے حق اور اسرائیل کے ملک کی غیر مشروط سلامتی کے حق دونوں کو یقینی بنایا جا سکے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے اس بیان کے بارے میں پوچھے جانے پر کہ ایران میں حکومت کا تختہ الٹنا اسرائیل کے فوجی حملوں اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایران کے "غیر مشروط ہتھیار ڈالنے" کے مطالبے کا نتیجہ ہوسکتا ہے، پوٹن نے کہا کہ کسی بھی چیز کو شروع کرنے سے پہلے ہمیشہ یہ دیکھنا چاہئے کہ اصل مقصد حاصل کیا جا رہا ہے یا نہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم آج ایران میں داخلی سیاسی عمل کی تمام پیچیدگیوں کے ساتھ یہ دیکھ رہے ہیں۔ پوٹن نے شمالی روسی شہر سینٹ پیٹرزبرگ میں سینئر نیوز ایجنسی کے ایڈیٹرز کو بتایا کہ ملک کی سیاسی قیادت کے ارد گرد معاشرے کا استحکام ہے۔
پیوٹن نے کہا کہ وہ ذاتی طور پر ٹرمپ اور نیتن یاہو کے ساتھ رابطے میں ہیں اور انہوں نے تنازع کے حل کے بارے میں ماسکو کے خیالات سے آگاہ کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایران کی زیر زمین یورینیم افزودہ کرنے کی تنصیبات اب بھی برقرار ہیں۔
پیوٹن نے کہا کہ "یہ زیر زمین تنصِبات موجود ہیں، ان کو کچھ نہیں ہوا ہے،" انہوں نے مزید کہا کہ تمام فریقین کو ایک ایسا حل تلاش کرنا چاہئے جو ایران اور اسرائیل دونوں کے مفادات کو یقینی بنائے۔
پیوٹن نے کہا کہ 'مجھے ایسا لگتا ہے کہ ہر ایک کے لیے یہ درست ہوگا کہ وہ دشمنی کو ختم کرنے کے طریقے تلاش کرے اور اس تنازعے کے تمام فریقوں کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ معاہدے پر پہنچنے کے طریقے تلاش کرے۔' "میری رائے میں، عام طور پر، اس طرح کا حل تلاش کیا جا سکتا ہے."
ایران روس کی فوجی مدد نہیں چاہتا
پیوٹن نے یہ بھی کہا کہ ایران ماسکو سے فوجی مدد حاصل نہیں کر رہا ہے۔
پیوٹن نے کہا کہ ایران ہم سے کسی قسم کی فوجی مدد کا مطالبہ نہیں کر رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ماضی میں جب ہم نے مشترکہ طور پر فضائی دفاعی نظام تیار کرنے کی پیش کش کی تھی تو ایران کی جانب سے اس میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔
پیوٹن نے کہا کہ ایران کے مفادات کو یقینی بنانے اور اسرائیل کی طرف سے خدشات کو دور کرنے کے آپشنز موجود ہیں اور یہ شراکت داروں کے سامنے پیش کیے گئے ہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ روس اور ایران نے بوشہر نیوکلیئر پاور پلانٹ میں مزید دو نئے نیوکلیئر یونٹس کی تعمیر کے معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔
روس کے نائب وزیر خارجہ سرگئی ریابکوف نے بدھ کے روز کہا ہے کہ ماسکو امریکہ سے کہہ رہا ہے کہ وہ ایران پر حملہ نہ کرے کیونکہ اس سے مشرق وسطیٰ یکسر غیر مستحکم ہو جائے گا۔
روسی وزارت خارجہ کے ترجمان نے خبردار کیا ہے کہ ایرانی جوہری تنصیبات پر اسرائیلی حملوں سے جوہری تباہی کا خطرہ ہے۔