اگرچہ کوریا کی جنگ کو 70 سال گزر چکے ہیں لیکن اس جنگ میں ترک فوجیوں کی قربانیوں کو آج بھی جنوبی کوریا کے عوام شکر گزاری کے ساتھ یاد کرتے ہیں۔
اس وقت کے وزیر اعظم عدنان میندریس کی تجویز پر ترک پارلیمان نے شمالی کوریا کے حملے کے خلاف جنوبی کوریا میں فوج بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ ترک بریگیڈ نے اپنی شاندار جرات اور کامیابیوں سے "ایلیٹ یونٹ" کا خطاب حاصل کیا اور جنگ کا رخ تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
استنبول میں مقیم کوریائی جنگ میں حصہ لینے والے 96 سالہ مصطفی رجبراوغلو ٹی آر ٹی ورلڈ کو ان دنوں کو بیان کرتے ہوئے جذباتی تھے: "انقرہ میں تربیت حاصل کرنے کے بعد، ہم اسکندرون سے بحری جہاز کے ذریعے روانہ ہوئے۔ ہم نے نہر سوئز کو عبور کیا، سمندر وں کو عبور کیا اور ایک طویل سفر کے بعد ہم کوریا پہنچے۔ ہمیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، ہم نے اپنے دوستوں کو کھو دیا۔ جب میں ان دنوں کو یاد کرتا ہوں تو میں جذباتی ہو جاتا ہوں۔ میں نہیں چاہتا کہ جنگ دوبارہ کہیں ہو، لیکن ایک بار جب یہ شروع ہو جائے تو آپ اس سے بچ نہیں سکتے۔
ترک بریگیڈ کوریا پہنچنے والی پہلی غیر ملکی افواج میں سے ایک تھی۔ اس جنگ میں تقریبا 900 ترک فوجی شہید ہوئے تھے۔ 462 شہدا جنوبی کوریا کے شہر بوسان میں واقع اقوام متحدہ کے کورین میموریل قبرستان میں موجود ہیں۔
ترک فوج نے جنگ کا رخ بدل دیا
جنوبی کوریا میں ترک سفیر مرات تامر نے کہا کہ کوریائی جنگ کی 70 ویں سالگرہ کے موقع پر ہم اپنے شہدا کو احترام اور شکر گزاری کے ساتھ یاد کرتے ہیں۔ ترک فوج نے جنگ میں بڑی بہادری کا مظاہرہ کیا اور جنگ کا رخ بدل دیا۔ "کومیانگ ژانگ -نی میں اپنی فتح کے ساتھ ترک فوج نے اقوام متحدہ کی افواج کو بحالی کے قابل بنایا۔
کوریا کی جنگ نے ترکیہ اور جنوبی کوریا کے درمیان مضبوط دوستی کی بنیاد رکھی۔ دونوں ممالک "خونی رشتوں میں منسلک برادرانہ عوام" کے طور پر جانے جاتے ہیں اور تمام شعبوں میں اپنے تعلقات کو فروغ دیتے رہتے ہیں۔ جنگ کے بعد ، ترک فوجیوں نے 1971 تک خطے میں امن برقرار رکھا۔
ترک فوجیوں کی قربانیاں نہ صرف میدان جنگ میں بلکہ ان کی انسانی امداد میں بھی ظاہر ہوئیں۔ ترکیہ وہ واحد ملک تھا جس نے جنگ میں یتیم ہونے والے کوریائی بچوں کے لیے اسکول تعمیر کیا تھا۔ ان بچوں میں سے ایک آئیلا کی کہانی ایک ایسی مثال قائم کرتی ہے جو انسانیت کو امید دیتی ہے۔
جنگ کے دوران سلیمان دلبرلک نامی ایک ترک فوجی کو ایک 5 سالہ بچی ملی جس نے اپنے خاندان کو کھو دیا تھا اور اس کا نام عائلہ رکھا۔ ترکی زبان میں آئیلا کا مطلب ہے "چاند اور ستاروں کے گرد نظر آنے والی روشنی کی انگوٹھی"۔
'ہم قربانیوں کو کبھی نہیں بھولیں گے'
سلیمان نے 15 ماہ تک ترک فوجی بیرکوں میں آئیلا کی دیکھ بھال کی۔ جب وہ ترکیہ واپس آئیں تو انہوں نے آئیلہ کو جنوبی کوریا کے انقرہ اسکول میں بھرتی کیا جسے ترک فوج نے قائم کیا تھا۔
آئیلا کو پیچھے چھوڑنا سلیمان کے لیے ایک مشکل فیصلہ تھا۔ وہ اسے تر کیہ لے جانا چاہتے تھےاور اسے اپنی بیٹی کے طور پر پالنا چاہتے تھے۔ تاریخی ریکارڈ کے مطابق انہوں نے آئیلا کو سوٹ کیس میں ملک سے باہر لے جانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔
کئی سال بعد، آئیلا اور سلیمان جنوبی کوریا میں دوبارہ مل گئے۔ اس جذباتی ملاقات نے ایک بار پھر ظاہر کیا کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کتنے مضبوط ہیں۔
انقرہ میں جنوبی کوریا کے سفیر وان اک لی نے کہا کہ ترک فوجیوں کی قربانیوں نے کوریائی عوام کی یادوں میں گہرے نشان چھوڑے ہیں۔
جمہوریہ کوریا ان قربانیوں کو کبھی فراموش نہیں کرے گا۔