طالبان کا کہنا ہے کہ انہوں نے افغانستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے حوالے سے ایک ملاقات میں تبادلہ خیال کیا، جو زیادہ تر قیدیوں کے تبادلے پر مرکوز تھی۔
طالبان کے بیان کے مطابق، ان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی نے ٹرمپ انتظامیہ کے یرغمالیوں کے امور کے خصوصی ایلچی ایڈم بوہلر اور افغانستان کے لیے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد سے ملاقات کی۔ طالبان نے اس ملاقات کی تصاویر بھی جاری کیں۔
بیان میں کہا گیا کہ "دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ تعلقات کو فروغ دینے، شہریوں سے متعلق مسائل اور افغانستان میں سرمایہ کاری کے مواقع پر جامع بات چیت کی گئی۔" تاہم، بیان میں یہ نہیں بتایا گیا کہ ملاقات کہاں یا کب ہوئی۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ امریکی وفد نے گزشتہ ماہ کے آخر میں مشرقی افغانستان میں آنے والے تباہ کن زلزلے پر تعزیت کا اظہار بھی کیا۔
قیدیوں کا تبادلہ
دونوں فریقین نے اہم معاملات پر رابطہ برقرار رکھنے پر اتفاق کیا، خاص طور پر ان قیدیوں کے حوالے سے جو امریکہ اور افغانستان میں زیر حراست ہیں۔
افغانستان کے نائب وزیر اعظم عبدالغنی برادر کے دفتر نے اس ملاقات کے بعد کہا کہ "ایڈم بوہلر نے افغانستان اور امریکہ کے درمیان زیر حراست شہریوں کے مسئلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک قیدیوں کا تبادلہ کریں گے۔"
امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے تبادلے کی تصدیق کرنے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ بوہلر کابل گئے تھے تاکہ "ممکنہ اقدامات کا جائزہ لیا جا سکے۔"
روبیو نے مشرق وسطیٰ کے دورے پر جاتے ہوئے صحافیوں کو بتایا، "ہمارے خصوصی ایلچی غیر قانونی طور پر زیر حراست افراد کے حوالے سے کافی عرصے سے بات چیت کر رہے ہیں۔"
"ظاہر ہے، کسی بھی تبادلے یا معاہدے کا فیصلہ صدر کریں گے، لیکن ہم یقینی طور پر چاہتے ہیں کہ کوئی بھی امریکی یا کوئی بھی شخص وہاں غیر قانونی طور پر حراست میں نہ رہے ۔ اور وہ اسی لیے وہ وہاں گئے تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ یہ عمل کیسا ہو سکتا ہے۔"