بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں حکام نے، کشمیری سیاسی رہنماوں اور عوام کو 1931 کی نوآبادیت مخالف تحریک کی سالانہ یاد منانے سے روکنے کے لئے، سری نگر کے ایک تاریخی قبرستان کی طرف جانے والے تمام اہم راستے بند کر دیئے ہیں ۔
مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق اتوار کے روز شہر بھر میں صبح سویرے بھاری پولیس نفری اور نیم فوجی دستے تعینات کر دیئے گئے۔ خواجہ بازار کے داخلی راستےبھی، کہ جہاں 1931 کی تحریک کے دوران شہید کئے گئے 22 کشمیریوں کی قبریں ہیں، صرف سرکاری اور سکیورٹی گاڑیوں کے لیے کھلے تھے۔
معروف کشمیری شخصیات، بشمول سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ، نے کہا ہے کہ انہیں نظر بند کر دیا گیا ہے۔
عمر عبداللہ نے ایکس پر جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ "گھروں کو باہر سے بند کر دیا گیا ہے، پولیس اور مرکزی فورسز جیلر کے طور پر تعینات ہیں، اور سری نگر کے اہم پُل بند کر دیے گئے ہیں۔"
"یہ سب کچھ لوگوں کو ایک تاریخی اہمیت کے حامل قبرستان میں جانے سے روکنے کے لیے کیا گیا ہے۔ میں کبھی نہیں سمجھ سکوں گا کہ قانون اور حکومت کو کس چیز کا اتنا خوف ہے۔"
https://trt.global/world/article/f1f242893249
جمہوری حقوق پر کریک ڈاؤن اور حملہ
یہ کریک ڈاؤن 2019 میں نئی دہلی کی جانب سے جموں و کشمیر کی نیم خودمختار حیثیت ختم کرنے کے بعد خطے کے سیاسی ماحول پر بڑھتی ہوئی تنقید کے درمیان سامنے آیا ہے۔
2020 تک، 13 جولائی کو یومِ شہدائے کشمیر کے طور پر منایا جاتا تھا اور اس دن عام تعطیل ہوتی تھی۔ یہ دن ڈوگرہ مہاراجہ کے دور حکومت میں برطانوی نوآبادیاتی حکمرانی کے تحت 22 مظاہرین کی شہادت کی یادگار ہے۔
نیشنل کانفرنس پارٹی نے کہا ہے کہ اس سال اس نے قبرستان کی زیارت کی باضابطہ اجازت طلب کی تھی لیکن ضلعی انتظامیہ نے اسے مسترد کر دیا ہے۔
سری نگر پولیس نے ایکس سے جاری کردہ عوامی مشورے میں تصدیق کی ہے کہ تمام ایسی درخواستیں مسترد کر دی گئی ہیں اور خبردار کیا ہے کہ "کسی بھی خلاف ورزی پر سخت قانونی کارروائی کی جائے گی۔"
نیشنل کانفرنس کے ترجمان تنویر صادق نے کہا ہے کہ "یہ صرف ایک تاریخ نہیں ہےیہ قربانی، وقار، اور انصاف کے لیے جدوجہد کی یاد دہانی ہے۔"
"ہم اپنے شہداء کو پرامن، باوقار اور غیر متزلزل عزم کے ساتھ یاد کرتے رہیں گے۔"