اسرائیل جنوبی سوڈان کے ساتھ غزہ سے جنگ زدہ مشرقی افریقی ملک میں فلسطینیوں کی آبادکاری کے امکان کے بارے میں بات چیت کر رہا ہے ، جو اسرائیل کی جانب سے محصور علاقے کے خلاف 22 ماہ کی جنگ کی وجہ سے تباہ حال علاقے سے بڑے پیمانے پر نقل مکانی کو آسان بنانے کی وسیع تر کوشش کا حصہ ہے۔
اس معاملے سے واقف چھ افراد نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بات چیت کی تصدیق کی۔
اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو نے کہا ہے کہ وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ کی زیادہ تر آبادی کو 'رضاکارانہ نقل مکانی' کے ذریعے منتقل کرنے کے وژن کو عملی جامہ پہنانا چاہتے ہیں۔
اسرائیل نے دیگر افریقی ممالک کے ساتھ بھی اسی طرح کی بازآبادکاری کی تجاویز پیش کی ہیں۔
فلسطینیوں، انسانی حقوق کی تنظیموں اور بین الاقوامی برادری نے ان تجاویز کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جبری بے دخلی کا خاکہ قرار دے کر مسترد کر دیا ہے۔
یہ ٹرمپ کے لیے بھی ایک ممکنہ قدم ہے، جنہوں نے فروری میں غزہ کی آبادی کو دوبارہ آباد کرنے کا خیال پیش کیا تھا لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ اب اپنی اس تجویز سے دستبردار ہو چکے ہیں۔
اسرائیل کی وزارت خارجہ نے تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا جبکہ جنوبی سوڈان کے وزیر خارجہ نے مذاکرات کے بارے میں سوالات کا جواب نہیں دیا۔
امریکی امور خارجہ کے ایک ترجمان نے کہا کہ وہ نجی سفارتی بات چیت پر تبصرہ نہیں کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ بہت سے فلسطینی جنگ اور قحط سے متصل بھوک کے بحران سے بچنے کے لئے کم از کم عارضی طور پر غزہ چھوڑنا چاہتے ہیں لیکن انہوں نے کسی بھی مستقل آبادکاری کو یکسر مسترد کر دیا ہے ۔
انہیں خدشہ ہے کہ اسرائیل انہیں کبھی واپس آنے کی اجازت نہیں دے گا، اور بڑے پیمانے پر انخلاء اسے غزہ کو ضم کرنے اور وہاں یہودی بستیوں کو دوبارہ قائم کرنے کی اجازت دے گا، جیسا کہ اسرائیلی حکومت میں انتہائی دائیں بازو کے وزراء نے مطالبہ کیا تھا۔
اس کے باوجود وہ فلسطینی جو ملک چھوڑنا چاہتے ہیں وہ بھی جنوبی سوڈان میں پناہ لینے کا امکان نہیں رکھتے جو دنیا کے سب سے زیادہ غیر مستحکم اور تنازعات کا شکار ممالک میں سے ایک ہے۔
جنوبی سوڈان آزادی کے بعد شروع ہونے والی خانہ جنگی سے نکلنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے، جس میں تقریبا 400،000 افراد ہلاک ہوئے تھے اور ملک کے کچھ حصے قحط میں ڈوب گئے تھے۔