اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ اس نے غزہ شہر پر دوبارہ قبضہ کرنے کے لئے جاری جارحیت کے "نئے مرحلے" کا آغاز کر دیا ہے، جس سے محصور فلسطینی علاقے میں نسل کشی میں اضافہ ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے غزہ شہر پر حملے کے ابتدائی مراحل اور ابتدائی کارروائیاں شروع کر دی ہیں۔
فوجی ترجمان ایفی ڈیفرن نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ہماری افواج اب غزہ شہر کے مضافات پر قابض ہیں۔
انہوں نے کہا کہ فوج اپنے زمینی حملے کے دوسرے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے، جس کا کوڈ نام آپریشن گڈیون کیریتھئس رکھا گیا ہے۔
ڈیفرین نے دعویٰ کیا کہ حماس آج وہ حماس نہیں ہے جو آپریشن سے پہلے موجود تھی۔
ان کے مطابق، چیف آف اسٹاف ایال ضمیر نے 60 ہزار کے قریب اضافی کمک کو ہدایت جاری کر دی ہیں ۔
ڈیفرن نے یہ بھی کہا کہ غزہ پر اسرائیل کا 75 فیصد "آپریشنل کنٹرول" ہے۔
جبری نقل مکانی
8 اگست کو ، وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو کی جنگی کابینہ نے غزہ شہر پر آہستہ آہستہ قبضہ کرنے کے منصوبے کی منظوری دی۔
اس منصوبے میں تقریبا 10 لاکھ فلسطینیوں کو شہر کے ارد گرد جنوب کی طرف دھکیلنے اور رہائشی اضلاع میں زمینی چھاپے مارنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
11 اگست کو اسرائیل نے غزہ شہر کے علاقے زیتون پر وسیع پیمانے پر حملہ کیا۔
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ گھروں کو دھماکہ خیز مواد سے بھرے روبوٹس، توپ خانے کی گولہ باری، اندھا دھند فائرنگ اور بڑے پیمانے پر رہائشیوں کی نقل مکانی سے اڑا دیا گیا۔
اسرائیل کی نسل کشی
اسرائیل نے اکتوبر 2023 سے اب تک غزہ میں 62 ہزار 100 سے زائد فلسطینیوں کو شہید کیا ہے۔
یہ علاقہ کئی مہینوں سے جاری بمباری کی وجہ سے تباہ ہو چکا ہے اور اقوام متحدہ کے حمایت یافتہ ماہرین کی جانب سے بڑے پیمانے پر بھوک کی وارننگ جاری کی گئی ہے۔
گزشتہ نومبر میں بین الاقوامی فوجداری عدالت نے غزہ میں جنگی اور انسانیت سوز جرائم پر نیتن یاہو اور سابق وزیر دفاع یاو گیلنٹ کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے۔
اسرائیل کو عالمی عدالت انصاف میں نسل کشی کے مقدمے کا بھی سامنا ہے۔
غزہ شہر میں ہونے والا قتل عام نسل کشی میں ایک اہم موڑ کی حیثیت رکھتا ہے، اسرائیلی حکام نے بڑھتی ہوئی بین الاقوامی مذمت کے باوجود کھلے عام طویل مدتی قبضے کے منصوبے کو بیان کیا ہے۔