فلسطینی ذرائع ابلاغ کے مطابق، اسرائیلی حملے کے نتیجے میں رفح کے علاقے تل السلطان میں کئی افراد ہلاک اور زخمی ہو گئے ہیں۔
حملہ علی الصبح کیا گیاجس کے نتیجے میں کم از کم 23 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ خان یونس کے مغربی علاقے میں اسرائیلی فضائی حملے کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں میں حماس کے ایک اعلیٰ عہدیدار اور فلسطینی رکنِ پارلیمنٹ بھی شامل ہیں ۔ فلسطینی گروپ نےآج بروز اتوار اس کی تصدیق کی ہے۔
حماس نے کہا ہے کہ حماس سیاسی بیورو کے رکن اور فلسطینی قانون ساز کونسل کے رکن 'صلاح البردویل' کو ایک “ٹارگٹڈ حملے” میں قتل کر دیا گیا ہے۔شہادت کے وقت صلاح ، المواسی کے علاقے میں، اپنےخیمے میں نمازِ عشاء ادا کر رہے تھے۔ حماس نے مزید کہا ہے کہ ان کی اہلیہ بھی اس حملے میں جاں بحق ہو گئی ہیں۔
یہ فضائی حملہ غزہ پر جاری شدید اسرائیلی بمباری کا حصہ ہے ۔
حماس نے اس حملے کی مذمت کی ،اسے "بزدلانہ صیہونی حملہ" قرار دیا اور کہا ہے کہ اسرائیل غزہ میں "قتل عام کی منظم مہم کے تحت" جنگی جرائم کا ارتکاب کر رہا ہے۔
رفح میں ایمبولینس عملہ مشکلات کا شکار
فلسطین ہلال احمر سوسائٹی نے غزہ کے جنوبی شہر رفح میں اسرائیلی فوج کے ایمبولینسوں کو گھیرے میں لینے کا اعلان کیا اور کہا ہے کہ محاصرے کے بعد سے ایمبولینسوں کے عملے سے رابطہ منقطع ہو گیا ہے۔
ہلال احمر نے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ "قابض افواج نے رفح کے علاقے الحشاشین میں ایک حملے کے جواب میں فلسطین ہلال احمر کی کئی ایمبولینسوں کا گھیراو کر لیا ہے۔کئی گھنٹے سے جاری محاصرے میں ایمبولینس عملے کے کئی اراکین زخمی ہو گئے ہیں اور ٹیم کے ساتھ رابطہ منقطع ہو گیا ہے۔
دوسری جانب، اسرائیلی فوج کے عربی زبان کے ترجمان اویچائی ادرعی نے ایک پیغام میں رفح کے تل السلطان علاقے کے رہائشیوں کو فوری طور پر علاقہ چھوڑنے کا حکم دیا۔
انہوں نے تل السلطان کو "خطرناک جنگی علاقہ" قرار دیا اور کہا ہے کہ علاقے میں "کسی بھی گاڑی کی نقل و حرکت ممنوع ہے"۔
ٹرمپ کا فلسطینیوں کی جبری نقل مکانی پر اصرار
اسی دوران، امریکی قومی سلامتی کے مشیر مائیک والٹز نے فاکس نیوز کو بتایا ہے کہ غزہ کے فلسطینیوں کو زبردستی منتقل کرنے کا ٹرمپ کا منصوبہ "ایک بہت ہی حقیقی خیال" ہے۔
ٹرمپ کی بہو 'لارا ٹرمپ" کے ساتھ ایک انٹرویو میں مسٹر والٹز نے کہا ہے کہ "وہ... غزہ میں تباہی کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ وہ جانتے ہیں، ایک معمار کے طور پر، کہ سب کچھ دوبارہ ترتیب دینے میں کئی سال لگیں گے۔ وہ ایک بہت ہی حقیقی سوال کرتے ہیں کہ دو ملین لوگ اس سب کے درمیان ایک دہائی تک کیسے رہ سکتے ہیں"؟
مائیک والٹر نے کہا ہے کہ " اگر فلسطینیوں کو ایک حل پیش کیا جائے تو وہ غزہ چھوڑنے کا موقع حاصل کر سکتے ہیں۔ آئیے غزہ کی تعمیر نو پر اربوں خرچ کرنے کو پاگل پن سمجھنا بند کریں، صرف یہ دیکھنے کے لیے کہ دہشت گرد دوبارہ حملہ کرتے ہیں یا نہیں"۔
تاہم، غزہ کے فلسطینیوں نے ٹرمپ کی تجویز کو نسلی صفائی قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا اور کہا ہے کہ وہ اپنی زمین پر رہنا چاہتے ہیں۔ عرب ممالک نے بھی اس کی مخالفت کی اور غزہ کی تعمیر نو کے لیے اس کے باشندوں کو منتقل کیے بغیر ایک متبادل تجویز پیش کی ہے۔
واضح رہے کہ منگل سے اسرائیل کی جانب سے غزہ پر کیے گئے اچانک فضائی حملے میں 700 سے زائد فلسطینی ہلاک اور 1,000 سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔ ان حملوں کے ساتھ، جنوری میں نافذ ہونے والے جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے، معاہدے کا خاتمہ ہو گیا ہے۔
اکتوبر 2023 سے جاری اسرائیلی فوجی جارحیت کے دوران تقریباً 50,000 فلسطینی، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں، ہلاک ہو چکے ہیں اور 113,000 سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔ غزہ میں فلسطینی حکام کے میڈیا دفتر نے اپنے اعداد و شمار کو اپ ڈیٹ کرتے ہوئے کہا کہ 61,700 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں، اور ملبے کے نیچے دبے ہزاروں فلسطینیوں کو مردہ تصور کیا جا رہا ہے۔
بین الاقوامی فوجداری عدالت نے گذشتہ نومبر میں اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو اور ان کے سابق وزیر دفاع یوآو گیلنٹ کے خلاف غزہ میں جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات میں وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے۔
اسرائیل کو غزہ کے خلاف جنگ کے لیے بین الاقوامی عدالت انصاف میں نسل کشی کے مقدمے کا بھی سامنا ہے۔