شمال مغربی پاکستان میں دہشت گردوں کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے کے دوران کم از کم 12 پاکستانی فوجی شہید ہو گئے۔
فوج کے میڈیا ونگ نے بتایا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے تعلق رکھنے والے 35 دہشت گرد 10 سے 13 ستمبر کے دوران دو الگ الگ فوجی کارروائیوں میں مارے گئے۔
پہلی کارروائی میں، جو ضلع باجوڑ میں ہوئی، 22 دہشت گرد مارے گئے، جبکہ دوسری جھڑپ جنوبی وزیرستان میں ہوئی، جہاں 12 فوجی اور 13 دہشت گرد ہلاک ہوئے۔
بیان میں کہا گیا کہ دونوں جھڑپیں 'فتنہ الخوارج' کے ساتھ ہوئیں، جو ٹی ٹی پی کے لیے استعمال ہونے والی اصطلاح ہے۔
ایک مقامی حکومتی اہلکار نے بتایا ہے کہ ایک فوجی قافلہ صبح 4 بجے کے قریب جنوبی وزیرستان کے ایک علاقے سے گزر رہا تھا جب 'مسلح افراد نے دونوں طرف سے بھاری ہتھیاروں سے فائرنگ کی'، جس کے نتیجے میں 12 سیکیورٹی اہلکار شہید اور چار زخمی ہو گئے۔
علاقے میں تعینات ایک سیکیورٹی افسر نے ہلاکتوں کی تصدیق کی اور کہا کہ حملہ آوروں نے قافلے کے ہتھیار قبضے میں لے لیے۔
ٹی ٹی پی نے حملے کی ذمہ داری قبول کر لی
دہشت گرد گروپ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے سوشل میڈیا پر ایک پیغام میں حملے کی ذمہ داری قبول کی۔
یہ گروپ آزادانہ طور پر کام کرتا ہے، لیکن افغان طالبان کے ساتھ قریبی تعلق رکھتا ہے۔
یہ خیبر پختونخوا صوبے میں مہینوں کے دوران ہونے والے سب سے مہلک حملوں میں سے ایک تھا، جہاں ٹی ٹی پی کبھی وسیع علاقے پر قابض تھی، جب تک کہ 2014 میں شروع ہونے والے فوجی آپریشن کے ذریعے انہیں پیچھے نہ دھکیل دیا گیا۔
اسلام آباد نے پڑوسی افغانستان پر الزام لگایا ہے کہ وہ دہشت گردوں کو افغان سرزمین استعمال کرنے سے نہیں روک رہا جو پاکستان پر حملے کرتے ہیں، تاہم کابل کے حکام ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔
کئی ہفتوں سے، خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع کے رہائشیوں نے اطلاع دی ہے کہ عمارتوں پر ٹی ٹی پی کے نام کے ساتھ گرافٹی نظر آ رہی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ انہیں اس دور کے لوٹنے کا خوف ہے جب ٹی ٹی پی نے افغانستان سے پھیلنے والی امریکی 'وار آن ٹیرر' کے عروج کے دوران اس علاقے پر حکمرانی کی تھی۔
ایک سینئر مقامی حکومتی اہلکار نے حال ہی میں اے ایف پی کو بتایا کہ ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں اور حملوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔
اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق، یکم جنوری سے اب تک مسلح گروپوں کے ریاست کے خلاف کیے گئے حملوں میں تقریباً 460 افراد، جن میں زیادہ تر سیکیورٹی فورسز کے اہلکار شامل ہیں، ہلاک ہو چکے ہیں۔ یہ حملے خیبر پختونخوا اور جنوبی صوبہ بلوچستان میں ہوئے تھے۔
اسلام آباد میں قائم سینٹر فار ریسرچ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز کے مطابق گزشتہ سال پاکستان کے لیے تقریباً ایک دہائی میں سب سے مہلک سال تھا، جس میں 1,600 سے زائد افراد ہلاک ہوئے، جن میں سے تقریباً نصف فوجی اور پولیس اہلکار تھے۔