امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے آرمینیا اور آذربائیجان کے رہنماؤں کو واشنگٹن میں ایک اہم امن کانفرنس میں مدعو کر کے وائٹ ہاؤس میں ایک تاریخ لمحہ رقم کر دیا ہے۔ توقع ہے کہ یہ سربراہی اجلاس سوویت یونین کے خاتمے سے اب تک جاری طویل ترین جھڑپوں میں سے ایک کا خاتمہ کر دے گا۔
آرمینیا کے وزیر اعظم نکول پاشینیان اور آذربائیجان کے صدر الہام علی ییف نے امریکہ کے ساتھ نئے اسٹریٹجک معاہدوں پر دستخط کیے اوردونوں ممالک کو دہائیوں پرانے تنازعے کے پرامن حل کا پابند کرنے والے، ایک مشترکہ اعلامیہ کی منظوری دی ہے۔
امن کا یہ راستہ دو اہم اجزاء پر مشتمل ہے۔پہلا یہ کہ ایک دوسرے کی بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ سرحدوں کو بغیر کسی علاقائی دعوے کے تسلیم کیا جائے اور دوسرا یہ کہ ایک ٹڑانزٹ راستہ تعمیر کیا جائے جو آرمینیا کے جنوب سے گزرنے والی ایک تنگ پٹی کے ذریعے آذربائیجان کے علاقے ایکسکلاو کو ناہچیوان سے منسلک کرے۔
اس راہداری کو 'ٹرمپ روٹ فار انٹرنیشنل پیس اینڈ پراسپیریٹی' (TRIPP) کہا جائے گا اور 99 سال تک اس کا انتظام ایک امریکی حمایت یافتہ کاروباری کنسورشیم کی طرف سے چلایا جائے گا۔
اس خطے میں ایک ٹرانسپورٹ راہداری کا تصور نیا نہیں ہے۔ حقیقت میں، ایسا راستہ کئی دہائیوں سے مختلف شکلوں میں موجود تھا، یہاں تک کہ آرمینیا نے 1990 کی دہائی میں اسے بند کر دیا تھا۔
دوسری قاراباغ جنگ کے بعد، اس تصور کو 'زنگزور کوریڈور' کے طور پر دوبارہ زندہ کیا گیا ہے۔
تاہم نام خواہ کچھ بھی ہو تمام فریقین کے مفاد میں ہونے کی وجہ سے کوئی بھی اس راہداری کے قیام کے خلاف نہیں ہے۔
ترکی کے لیے فوائد
ترکیہ کے لیے، آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان معمول کے تعلقات سے دو اہم جغرافیائی سیاسی نتائج نکلتے ہیں۔
پہلا یہ کہ یوریشیا کے قلب سے ترکیہ کو جوڑنے والے ٹرانسپورٹ راستوں میں زیادہ لچک پیدا ہونے کا امکان ہے۔
فی الحال، ترکیہ کا بنیادی راستہ جارجیا سے آذربائیجان اور پھر بحیرہ کیسپین کے پار وسطی ایشیا تک جاتا ہے۔
یہ راستہ آزمودہ اور قابل اعتماد ہے، اور اس نے ترکیہ کے علاقائی ٹرانسپورٹ مرکز کے کردار کو مضبوط کرنے میں مدد دی ہے۔
ٹرانزٹ لنکس جیسے باکو۔تبلیس۔کارس ریلوے لائن، باکو۔تبلیسی۔جیہان گیس پائپ لائن اور سدرن گیس کوریڈور ترکیہ کے عالمی منڈیوں سے اتصال کے حوالے سے مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔