فلسطینی آئس کریم فروش 'کاظم' نے متحدہ عرب امارت میں اپنا آئس کریم پارلر دوبارہ کھول لیا ہے۔
کاظم کو 2023 میں غزّہ میں جنگ شروع کرنے کے بعد یہاں سے اپنے آئس کریم پارلر بند کرنا پڑے تھے لیکن اب انہوں نے متحدہ عرب امارات میں دوبارہ سے کام شروع کر دیا ہے۔
کاظم صرف ایک آئس کریم فروش نہیں ہیں بلکہ مقامی آبادی کو اپنائیت کا احساس بھی دلاتے ہیں۔
آئس کریم فروشی کا کام مالک محمد کاظم ابو شعبان کے والد نے شروع کیا اور اب وہ اسے چلا رہے ہیں۔اس بارے میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کاظم نے کہا ہےکہ انہوں نےیہ کام دوبارہ شروع کرنے کے لئے عجمان کا انتخاب یہاں موجود فلسطینی کمیونٹی کی وجہ سے کیا ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ "یہ فلسطینی جب بھی یہاں آتے ہیں تو 30، 40 سال پرانی یادیں تازہ ہونے کا ذکر کرتے ہیں۔ ان دنوں کی یادیں جب وہ غزہ جاتے تھے اور میرا آئس کریم ڈرنگ 'براد' پیتے تھے کہ جس کے لیے میں مشہور ہوں۔"
کاظم نے 1950 میں شمالی غزہ میں آئس کریم کا کام شروع کیا اور اپنے بند ہونے تک یعنی کوئی 70 سال سے زیادہ عرصے تک یہ آئس کریم مشروب غزّہ کی مقامی علامت بنا رہا۔
ابو شعبان کاظم نے کہا ہے کہ آئس کریم مشروب کی غزہ شاخ فروری میں دوبارہ کھلی لیکن سپلائی کی مشکلات اور عدم استحکام کی وجہ سے کاروبار جاری رکھنا ممکن نہ رہا۔یہی نہیں دکان کا چلتے رہنا خام مال کی دستیابی پر منحصر ہے۔
انہوں نے مزید کہا ہے کہ "خدا کی قسم، غزہ میں حالات بہت خراب ہیں۔عجمان میں کاظم آئس کریم پارلر کھولنا گھر سے دُور رہ کربھی فلسطینی ورثے کو محفوظ رکھنا ہے۔ انہوں نے دبئی اور ابو ظہبی جیسے دیگر شہروں میں بھی شاخیں کھولنے کی امید ظاہر کی ہے۔
دبئی کے محمد خمیس علی المزروعی نے کہا ہے کہ کاظم کی آئس کریم اور 'براد' چکھنے کے بعد انہیں اس کی مقبولیت کی وجہ سمجھ آئی ہے۔ یعنی کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ واقعی خاص ہے۔"
غزّہ جنگ میں اپنے بھائی اور بھتیجی سے محروم ہونے والے ابوشعبان کے لئے کاظم آئس کریم صرف ایک میٹھے کا نام نہیں ہے بلکہ ایک چمچ آئس کریم کے ساتھ غزہ کی یادوں کو زندہ رکھنے کا ایک طریقہ ہے ۔
انہوں نے کہا ہے کہ "یہ ایک ناقابل بیان احساس ہے۔ آپ کے خاندان، رشتہ دار اور دوست آتے ہیں اور اپنے ساتھ وہ یادیں لاتے ہیں جو غزہ میں کھو گئی ہیں"۔