فلسطینی مزاحمتی گروپ حماس نے اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ، جن کی انتہا پسند حکومت غزہ پر دوبارہ قبضے کے منصوبے پر غور کر رہی ہے، محصور علاقے میں موجود اسرائیلی قیدیوں کو قربان کر رہے ہیں۔
حماس نے جمعرات کو ایک بیان میں کہا، "نیتن یاہو کے جارحیت بڑھانے کے منصوبے اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ وہ قیدیوں سے چھٹکارا پانے اور اپنے ذاتی مفادات اور انتہا پسند نظریاتی ایجنڈے کے حصول کے لیے انہیں قربان کرنے کے خواہاں ہیں۔"
یہ بیان اس وقت جاری کیا گیا جب نیتن یاہو نے غزہ میں نسل کشی کے عمل کو مزید پھیلانے کے موضوع پر رائے دہی کا مطالبہ کیا۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق، اس میں فلسطینی علاقے پر مکمل فوجی قبضے کا منصوبہ شامل ہو سکتا ہے۔
سرکاری ٹیلی ویژن کھان نے، نامعلوم سرکاری ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئےاطلاع دی ہے کہ نتن یاہو نے ایک "تدریجی" حکمت عملی تجویز کی، جو غزہ میں نسل کشی کے آغاز کے بعد سے سب سے حساس اجلاسوں میں سے ایک تھا۔
رپورٹ کے مطابق، اس منصوبے میں اسرائیلی قابض افواج کو ان علاقوں میں پیش قدمی کرنے کا کہا گیا ہے جہاں وہ پہلے نہیں گئے، جن میں حماس کے تربیتی کیمپ اور غزہ شہر شامل ہیں، حالانکہ فوج کے چیف آف اسٹاف ایال زامیر نے اس پر خبردار کیا تھا۔
جمعرات کو امریکی نیٹ ورک فاکس نیوز نے نیتن یاہو کا ایک انٹرویو نشر کیا، جس میں انہوں نے کہا کہ اسرائیل غزہ پر مکمل کنٹرول حاصل کرنا چاہتا ہے لیکن اسے اپنے پاس "رکھنا" یا " اس پرحکومت کرنا" نہیں چاہتا۔
ادھر حماس نے "جنگی مجرم بنیامین نیتن یاہو کے فاکس نیوز سے انٹرویو میں دیے گئے بیانات کے جواب میں کہا ہے۔ وہ جو منصوبہ بنا رہا ہےوہ نسل کشی اور جبری بے دخلی کی پالیسی کا تسلسل ہے، جس کے ذریعے ہمارے فلسطینی عوام کے خلاف مزید جرائم کیے جائیں گے۔"
عرب اقوام وہی کریں گی جسے فلسطینی قبول کریں گے
دوسری جانب، ایک اردنی عہدیدار نے نتن یاہو کے بیان کہ" اسرائیل غزہ کو عرب افواج کے حوالے کرنا چاہتا ہے جو اس پر حکومت کریں گی" کے جواب میں رائٹرز نیوز ایجنسی کو بتایا کہ عرب لوگ "صرف اس چیز کی حمایت کریں گے جو فلسطینی فیصلہ کریں گے۔
ذرائع نے کہا، "غزہ میں سیکیورٹی کو فلسطینی اداروں کے ذریعے یقینی بنایا جانا چاہیے۔"
نیتن یاہو نے حکومت کے انتظامات یا کن عرب ممالک کے شامل ہونے پر کوئی وضاحت نہیں دی۔
اردنی عہدیدار نے کہا، "عرب نیتن یاہو کی پالیسیوں پر اتفاق نہیں کریں گے اور نہ ہی اس کی گندگی صاف کریں گے۔" یہ نیتن یاہو کے بیانات پر کسی اہم عرب ہمسایہ ملک کا پہلا ردعمل تھا۔
اکتوبر 2023 سے، غزہ میں اسرائیل کی نسل کشی کے نتیجے میں بڑی تعداد میں فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔ فلسطینی حکام کی رپورٹس کے مطابق، اسرائیل کے ہاتھوں 61,000 سے زائد فلسطینی، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں ، اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
فلسطینی سرکاری خبر رساں ایجنسی وفا کے مطابق، خدشہ ہے کہ تقریباً 11,000 فلسطینی تباہ شدہ گھروں کے ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ غزہ میں حقیقی ہلاکتوں کی تعداد سرکاری رپورٹس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے، جو ممکنہ طور پر تقریباً 200,000 کے قریب ہے۔
2023 میں حماس کے قبضے میں لیے گئے 251 قیدیوں میں سے 49 اب بھی غزہ میں موجود ہیں، جن میں سے 27 کو فوج نے مردہ قرار دیا ہے۔ حماس کا کہنا ہے کہ بہت سے قیدی اسرائیلی حملوں میں مارے گئے۔
اسرائیل نے تقریباً 11,000 فلسطینیوں کو اغوا کر کے قید کر رکھا ہے۔