یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی نے دعویٰ کیا ہے کہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن جنگ بندی کے بجائے 'نئی جارحانہ کارروائیوں' کی تیاری کر رہے ہیں۔
انھوں نے پیر کے روز اپنے خطاب میں کہا کہ 'اس بات کا کوئی اشارہ نہیں ملا کہ روسیوں کو جنگ کے بعد کی صورت حال سے نمٹنے کے لیے تیار ہونے کے اشارے ملے ہیں۔'
زیلنسکی نے کہا کہ انٹیلی جنس اور فوجی رپورٹس سے پتہ چلتا ہے کہ پیوٹن "صرف امریکہ کے ساتھ ملاقات کو اپنی ذاتی فتح کے طور پر پیش کرنے کے لئے پرعزم ہیں اور پھر پہلے کی طرح کام جاری رکھیں گے اور یوکرین پر پہلے کی طرح دباؤ ڈالیں گے۔
یوکرین کے صدر نے اس بات پر بھی زور دیا کہ اس بات کا کوئی اشارہ نہیں ہے کہ روس امن کی تیاری کر رہا ہے، انہوں نے مزید کہا کہ فوجیوں کی دوبارہ تعیناتی مزید حملوں کی نشاندہی کرتی ہے۔
یوکرین کے صدر نے مزید کہا کہ کیف اپنے شراکت داروں کو میدان جنگ کی صورتحال، سفارتکاری اور روس کے مستقبل کے اقدامات کی منصوبہ بندی کے بارے میں آگاہ کرتا رہتا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ ہفتے اعلان کیا تھا کہ وہ یوکرین میں جنگ کے خاتمے سے متعلق بات چیت کے لیے الاسکا میں ہونے والے سربراہی اجلاس میں پوٹن کی میزبانی کریں گے۔
نجی طور پر اس خوف سے کہ پیوٹن ناقابل قبول سمجھوتوں پر مجبور کرنے کے لیے ٹرمپ کے ساتھ مل کر کام کریں گے، یورپی رہنما بدھ کے روز زیلنسکی اور ٹرمپ دونوں کے ساتھ الگ الگ بات کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
ٹرمپ نے کہا تھا کہ زمین کے تبادلے کی ضرورت ہوگی جسے زیلنسکی نے بعد میں مسترد کردیا۔
دوسری جانب،جرمن چانسلر فریڈرک مرز نے فرانسیسی، برطانوی اور دیگر رہنماؤں ، یورپی یونین اور نیٹو کے سربراہان کو ورچوئل مذاکرات کے لیے مدعو کیا ہے جس میں ممکنہ امن مذاکرات کی تیاری ، علاقائی دعووں اور سلامتی سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔