چاڈ کے سابق وزیرِاعظم اور حزبِ اختلاف کے رہنما، سکسیس مسرا کو، نسل پرستی اور غیر ملکی دشمنی پر مبنی پیغامات پھیلا کر تشدّد کو ہوا دینے کے جُرم میں، 20 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔
ان کے وکلاء میں سے فرانسس کادیلیمبائے نے ہفتے کے روز صحافیوں کے لئے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ دارالحکومت نجامینا میں خصوصی فوجداری عدالت نے مسرا کو نفرت انگیز تقریریں کرنے، غیر ملکیوں کے خلاف تعصب پھیلانے اور قتلِ عام کو ہوا دینے کے الزامات میں مجرم قرار دیا ہے۔ تاہم مسرا نے مقدمے کے دوران ان الزامات کی تردید کی ہے۔
ان کے وکلاء نے دلیل دی ہے کہ استغاثہ مسرا کے خلاف ٹھوس شواہد پیش کرنے میں ناکام رہا ہے۔
دیلیمبائے نے کہا ہے کہ 20 سال قید کے علاوہ مسرا کو 18 لاکھ ڈالر جرمانے کی بھی سزا سُنائی گئی ہے۔
دوستی سے دشمنی تک
مسرا ،صدر مہامت ادریس دیبی کے سخت مخالف ہیں لیکن اس کے باوجود انہوں نے دیبی کی عبوری حکومت میں تقریباً پانچ ماہ وزارتِ اعظمیٰ کے عہدے پر خدمات سرانجام دیں اور اس کے بعد مئی 2024 کے انتخابات میں ان کے خلاف امیدوار کھڑے ہوگئے۔
چاڈ کے پراسیکیوٹر نے مئی میں ان کے خلاف تحقیقات کا آغاز کیا۔ یہ تحقیقات، جنوبی قصبے منڈاکاؤ میں ہونے والےاور درجنوں افراد کی ہلاکت کا سبب بننے والے تصادم سے متعلق تھیں۔
وکیل نے کہا ہے کہ ان کی ٹیم صفائی کی اپیل کا ارادہ رکھتی ہے۔
انہیں 74 ایسے ملزمان کے ساتھ مقدمے کا سامنا کرنا پڑا جن پر قتلِ عام میں حصہ لینے کا الزام تھا۔
چاڈ کی مرکزی حزبِ اختلاف پارٹی 'لیس ٹرانسفارمرز' کے رہنما 'مسرا' کو 16 مئی کو گرفتار کیا گیا۔ یہ گرفتاری صوبہ لوگون آکسیڈنٹل میں 14 مئی کو ہونے والی اور 42 افراد کی اموات کا سبب بننے والی نسلی جھڑپوں کے بعد عمل میں آئی تھی۔
انہوں نے جولائی میں اپنی گرفتاری کے خلاف احتجاجاً بھوک ہڑتال شروع کی اور خواتین کی طرف سے ان کی رہائی کے لئے احتجاج کے نتیجے میں تقریباً ایک ہفتے بعد بھوک ہڑتال ختم کر دی تھی ۔