تجزیات
5 منٹ پڑھنے
اسرائیل نے مغربی کنارے کو ایک'بڑی جیل' بنا ڈالا
اسرائیل کے غزہ پر حملے کے آغاز سے ایسی حدود میں ایک نمایاں اضافہ ہوا ہے، جس سے شہروں اور گاؤں دائمی محاصرے کی حالت میں آ گئے ہیں۔
اسرائیل نے مغربی کنارے کو ایک'بڑی جیل' بنا ڈالا
FILE PHOTO: Israeli authorities encircle Palestinian town in West Bank with a fence, restricting free movement of residents. / Reuters
14 گھنٹے قبل

پانچ میٹر اونچی دھات کی باڑ فلسطینی قصبے سنجل کے مشرقی کنارے کو کاٹتی ہوئی گزرتی ہے، جو اسرائیل کے زیر قبضہ مغربی کنارے میں واقع ہے۔ بھاری اسٹیل کے دروازے اور سڑک کی رکاوٹیں قصبے میں داخلے اور باہر نکلنے کے تمام راستے بند کر دیتی ہیں، سوائے ایک راستے کے، جس پر اسرائیلی فوجی چوکیوں سے نگرانی کرتے ہیں۔

سات بچوں کے والد 52 سالہ موسیٰ شبانہ  نے کہا ہے کہ”سنجل اب ایک بڑی جیل بن چکا ہے،وہ مایوسی کے ساتھ دیکھ رہے تھے کہ مزدور قصبے کے کنارے نرسری کے درمیان باڑ لگا رہے تھے، جہاں وہ درخت اگاتے تھے جو ان کی آمدنی کا واحد ذریعہ تھے۔

”ظاہر ہے، اب ہمیں نرسری جانے کی اجازت نہیں ہے۔ میرے پاس جتنے درخت تھے وہ جل گئے اور ضائع ہو گئے،“ انہوں نے کہا۔ ” انہوں نے ہمارا روزگار  تک ختم کر دیا۔“

اسرائیلی افواج کی جانب سے بنائی گئی دیواریں اور چوکیاں مغربی کنارے کے تقریباً تین ملین فلسطینی باشندوں کی روزمرہ زندگی کا حصہ بن چکی ہیں۔

لیکن اب بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ غزہ پر اسرائیل کی جنگ کے آغاز کے بعد سے ان رکاوٹوں میں ڈرامائی اضافہ ہوا ہے، جس کی وجہ سے قصبے اور دیہات مستقل محاصرے کی حالت میں ہیں۔

سنجل کے ارد گرد کی باڑ ان رکاوٹوں کی ایک خاص مثال ہے جو پورے علاقے میں نمودار ہو چکی ہیں اور روزمرہ زندگی کا ایک غالب حصہ بن چکی ہیں۔ اسرائیلی افواج کا کہنا ہے کہ انہوں نے یہ باڑ رام اللہ-نابلس ہائی وے کی حفاظت کے لیے لگائی ہے۔

سڑکوں کی بندش

وہاں مقویم عوام کو اب تنگ اور پیچیدہ گلیوں سے گزر کر واحد اجازت شدہ داخلی راستے تک پہنچنا پڑتا ہے۔

کچھ لوگ سڑک کی بندشوں کو پیدل عبور کرتے ہیں تاکہ دوسری طرف گاڑیوں تک پہنچ سکیں۔

، نائب میئر بہاء فقعہ نے بتایا جو لوگ اپنے روزگار کے لیے ارد گرد کی زمینوں پر انحصار کرتے تھے، وہ مؤثر طور پر کٹ چکے ہیں انہوں نے کہا کہ باڑ نے 8,000 رہائشیوں کو صرف 10 ایکڑ کے اندر محدود کر دیا ہے، انہیں 2,000 ایکڑ کی ارد گرد کی زمین سے کاٹ دیا ہے، جو ان کی ذاتی ملکیت ہے۔

”یہ وہ پالیسی ہے جو قابض فوج لوگوں کو ڈرانے اور فلسطینی عوام کی ہمت توڑنے کے لیے استعمال کرتی ہے۔“

تقریباً 700,000 اسرائیلی اب اس علاقے میں رہتے ہیں جس پر اسرائیل نے 1967 میں قبضہ کیا تھا۔

زیادہ تر ممالک ان بستیوں کو جنیوا کنونشنز کی خلاف ورزی سمجھتے ہیں، جو قبضے کی زمین پر شہریوں کو بسانے پر پابندی عائد کرتی ہیں۔

ان دہائیوں کے بعد جب اسرائیل نے ایک آزاد فلسطینی ریاست کے امکان پر زبانی جمع خرچ کیا، اب انتہائی دائیں بازو کی اسرائیلی حکومت میں نمایاں نوآبادیاتی آبادکار شامل ہیں جو کھلے عام اپنے مقصد کا اعلان کرتے ہیں کہ پورے مقبوضہ مغربی کنارے کو ضم کر لیا جائے۔

سڑکوں پر زندگی

اکتوبر 2023 کے بعد اسرائیل نے مقبوضہ مغربی کنارے میں اپنی فوجی موجودگی میں اضافہ کیا۔

راتوں رات، سڑکوں پر مٹی کے ڈھیر اور بھاری پتھر رکھ دیے گئے۔

پھر بھاری دھات کے دروازے، جو عام طور پر پیلے یا نارنجی رنگ کے ہوتے ہیں، فلسطینی کمیونٹیز کے داخلی راستوں پر نصب کیے گئے اور فوج نے انہیں بند کر دیا، جو اکثر ان سڑکوں کی طرف لے جاتے ہیں جنہیں آبادکار بھی استعمال کرتے ہیں۔

فوج نے نئی مستقل چوکیاں قائم کیں

ایسی چوکیاں جو اچانک اور بغیر کسی پیشگی اطلاع کے قائم کی جاتی ہیں، زیادہ عام ہو گئیں۔

سنجل کی رہائشی اور ذاتی ٹرینر کے طور پر کام کرنے والی 52 سالہ ثناء علوان نے کہا کہ رام اللہ پہنچنے کے لیے جو سفر پہلے مختصر تھا، اب ہر طرف سے تین گھنٹے تک لگ سکتے ہیں، اور دن کے آغاز میں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ چیک پوائنٹس پر کتنا وقت لگے گا۔

کام سست ہو گیا ہے کیونکہ وہ اب اپنے گاہکوں سے یہ وعدہ نہیں کر سکتیں کہ وہ ان تک پہنچ سکیں گی۔

”ہماری آدھی زندگی سڑکوں پر گزر رہی ہے،“

معیشت کا گلا گھونٹنا

اس سال کے آغاز میں، مغربی کنارے کے شمال میں جنین میں اسرائیلی کریک ڈاؤن کے نتیجے میں دسیوں ہزار باشندے بے گھر ہو گئے۔

34 سالہ محمد جموس، جو ایریحو میں پلے بڑھے اور رام اللہ میں رہتے ہیں، پہلے تقریباً ہر ہفتے اپنے خاندان سے ملتے تھے۔ اب، ایک گھنٹے کا سفر عام طور پر کئی گھنٹوں تک بڑھ جاتا ہے، اور وہ کہتے ہیں کہ وہ اب عام طور پر صرف مہینے میں ایک بار ہی جا سکتے ہیں۔

فلسطینی اتھارٹی کے حکام، جو اسرائیلی قبضے کے تحت مغربی کنارے میں محدود خود حکمرانی کرتے ہیں، کو شک ہے کہ معیشت اور عام زندگی پر دباؤ ڈالنے کا مقصد جان بوجھ کر ہے۔

فلسطینی وزیر اعظم محمد مصطفی نے گزشتہ ماہ صحافیوں کو بتایا کہ”وہ ہمارے عوام  کی زندگی کو انتہائی مشکل بنانے کے لیے ہر ممکنہ  کاروائی کر  رہے ہیں۔“

 

دریافت کیجیے
لوور میوزیم میں تاریخی تزئین و آرائش: "مونا لیزا" کے لئے خصوصی کمرہ
قیدیوں کی زبانی،الاباما جیل کہانی
ہاتشیپسوت کے تاریخی نوادرات
چار سو سال پرانا آشوری بازار
محبت کیا ہے؟
ترک فنکار، زنزیبار کی سمندری معیشت کو فنون کے ذریعے جانبرکر رہے ہیں
داتچہ میں عہدِ عثمانیہ کا غرق شدہ  بحری جہاز  17ویں صدی کی بحری تاریخ پر روشنی ڈال رہاہے
عہدِ عثمانیہ میں رمضان اور حضوری   دروس
ترک ڈرامے دنیا میں ترکیہ کے چہرے کو بدل رہے ہیں
آزادی فلسطین کی حامی وکیل عائشہ نور
ڈنمارک  کا آرکٹک سمندر  میں اپنے وجود  کو مضبوطی دلانے کے لیے 2 بلین ڈالر کی فوجی امداد کا اعلان
بنگلہ دیش کی طرف سے  ہندوستانی سیاست دان کی طرف سے اقوام متحدہ کے امن مشن کے مطالبے کی مذمت
ہیضے نے سوڈان کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے تو جاری جھڑپوں کے دوران 1200 سے زیادہ افراد ہلاک ہو گئے
یوکرین نے مغرب سے جوہری ہتھیار حاصل کیے تو روس 'تمام ہتھیار' استعمال کرے گا: پوتن
آئی سی سی چیف:جنگی جرائم کی عدالت خطرے میں ہے
TRT گلوبل چیک کریں۔ اپنی رائے کا اشتراک کریں!
Contact us