کیا مغربی میڈیا نے بالا آخر اسرائیل کی اندھی پشت پناہی چھوڑ دی ہے؟
تجزیات
6 منٹ پڑھنے
کیا مغربی میڈیا نے بالا آخر اسرائیل کی اندھی پشت پناہی چھوڑ دی ہے؟مغربی میڈیا نے جنگ کے دوران اسرائیل کے طرز عمل پر سوال اٹھانے اور اپنا دیرینہ فوجی تعاون  واپس لینے پر حالیہ ایام میں  بحث شروع کی ہے۔
Major Western media outlets only recently began questioning Israel’s immorality during the war and started to pull back their longstanding support for Israeli military actions. / AP
11 گھنٹے قبل

مغربی ذرائع ابلاغ نے اسرائیل کے سیکورٹی خدشات اور اس کے اپنے دفاع کے حق پر ہمیشہ سے ہی زور دیا ہے جبکہ زیادہ تر فلسطینی عوام کے مصائب کو پس منظر میں رکھا گیا ہے۔

7اکتوبر سے اسرائیل کی فوجی کارروائیوں میں ایک اندازے کے مطابق 77,000 سے 109,000 فلسطینی شہریوں کے مارے جانے کے باوجود، مغربی میڈیا نے جنگ کے دوران اسرائیل کے طرز عمل پر سوال اٹھانے اور اپنا دیرینہ فوجی تعاون  واپس لینے پر حالیہ ایام میں  بحث شروع کی ہے۔

گزشتہ ہفتے سے، فنانشل ٹائمز اور دی اکانومسٹ نے  اخبارات نے  وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے جنگی منصوبے اور واشنگٹن کی مداخلت سے ہچکچاہٹ پر سخت تنقید کرتے ہوئے مضامین شائع کیے ہیں۔

نیویارک ٹائمز کے کالم نگار، تھامس فریڈمین، جو اسرائیل کے طویل عرصے سے حامی ہیں، نے کہا کہ "یہ اسرائیلی حکومت اب ہماری اتحادی نہیں رہی" اور دعویٰ کیا کہ اسرائیل خطے میں امریکی مفادات کو نقصان پہنچا رہا ہے۔

اسی ہفتے، فنانشل ٹائمز کے اداریے میں "غزہ پر مغرب کی شرمناک خاموشی" کی مذمت کی گئی، جب کہ اٹلانٹک نے نیتن یاہو کے وعدے کی "مطلق فتح" کو فلسطینیوں کی نسلی صفائی سے جوڑ دیا۔

دی اکانومسٹ نے کہا کہ جنگ "ختم ہونی چاہیے" اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے "جنگ بندی" کے لیے آگے بڑھنے کا مطالبہ کیا۔

اس سب کی روشنی میں ایک سوال جو ذہن میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ بڑے میڈیا اداروں کی طرف سے اسرائیل پر تنقیدی تبصروں کی اس اچانک لہر کی کیا وضاحت ہو سکتی ہے؟ دوسرا یہ کہ آیا یہ اسرائیل پر بین الاقوامی گفتگو میں بنیادی تبدیلی کا اشارہ دیتا ہے۔

نیتن یاہو ہمارے دوست نہیں

اسرائیل کی مغربی میڈیا کوریج میں یہ حالیہ نمایاں تبدیلی بے ترتیب دکھائی نہیں دیتی۔

غزہ کی حکمت عملی اور ایران پر وائٹ ہاؤس اور نیتن یاہو کے درمیان اختلافات، اس بات کے بڑھتے ہوئے شواہد کہ اسرائیل کی فوجی مہم زمینی سطح پر ناکام ہو رہی ہے اور سیاسی طور پر بیک فائر کر رہی ہے، 60 فیصد سے زیادہ اسرائیلی عوام کی جانب سے نئی بری  کاروائی کی مخالفت، اور ریزرو فوجیوں کی کالوں کا جواب دینے میں ناکامی جیسے عوامل کی   مغربی میڈیا میں بازگشت سنائی دینے لگی ہے۔

شہریوں کی ہلاکتوں میں اضافہ ہو رہا ہے تو   مضامین  میں خبردار کیا گیا ہے کہ غزہ پر اسرائیل کا جاری قبضہ "نسل کشی" میں تبدیل ہو رہا ہے۔

بی بی سی کے حوالے سے کیے گئے سروے کے مطابق اب صرف 46 فیصد امریکی اسرائیل کی حمایت کرتے ہیں، جو 25 سالوں میں سب سے کم شرح ہے، جب کہ فلسطین کے لیے حمایت  بے مثال سطح یعنی 33 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔

مغربی  میڈیا میں یہ بیداری نتن  یاہو اور ٹرمپ انتظامیہ کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے ساتھ بھی ہم آہنگت ہے۔ خارجہ پالیسی میں شالوم لپنر کا ایک مضمون نیتن یاہو اور ٹرمپ کے درمیان ممکنہ "تصادم کورس" کے بارے میں تفصیلات فراہم کرتا ہے۔ مضمون میں بتایا گیا ہے کہ واشنگٹن میں اسرائیلی وزیر اعظم کی " آمادہ کرنے  کی صلاحیت ڈرامائی طور پر کم  ہو گئی ہے " اور ریپبلکن حمایت اب "ٹرمپ کے ماتحت  اثرات  کے تحت" کام کر رہی ہے۔

اس نکتے پر مزید زور دیتے ہوئے امریکی صدر نے اپنے مشرق وسطیٰ کے دورے کے دوران  اسرائیل کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا کہ "اس وقت اسرائیل کے دورے سے کچھ حاصل نہیں ہو سکتا۔"

اسی دن فریڈمین کے نیو یارک ٹائمز کے آرٹیکل میں صدر ٹرمپ کو براہ راست مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا تھا، "یہ اسرائیلی حکومت خطے میں سخت گیر امریکی مفادات کو خطرہ   دلانے والی کاروائیاں کر رہی ہے۔ نیتن یاہو ہمارا دوست نہیں ہو سکتا۔" آرٹیکل  میں دلیل دی گئی ہے کہ نیتن یاہو حکومت کی ترجیح امن نہیں بلکہ "مغربی کنارے کا الحاق، غزہ سے فلسطینیوں کی بے دخلی اور وہاں اسرائیلی بستیوں کا دوبارہ قیام" ہے۔

تاہم یہ تبدیلی صرف سیاسی وجوہات کی وجہ سے نہیں بلکہ  عسکری کاروائیوں  سے بھی تعلق رکھتی  ہے۔

امریکی میزائل ڈیفنس شیلڈ میں ایک غیر متوقع کمزوری مئی کے اوائل میں اس وقت سامنے آئی جب حوثی میزائل اسرائیل کے امریکی ساختہ THAAD دفاعی نظام  کو پار کرتے ہوئے  بن گوریون ہوائی اڈے کی بندش اور تمام پروازوں کے معطل ہونے کا موجب بنا۔ علاوہ ازیں تین لڑاکا طیاروں اور سات ریپر ڈراونز کے نقصان نے خطرے کی سطح میں  مزید اضافہ کر دیا تھا۔

یہ تمام ناکامیاں جزوی طور پر اس بات کی بھی وضاحت کر سکتی ہیں کہ کیوں کر خبر رساں ادارے اسرائیل کی جنگ پر اپنے موقف پر نظر ثانی کرنے لگے ہیں اور  خطے میں واشنگٹن کے مفادات کمزور ہو رہے ہیں۔

نقصان کو محدود کرنے کی کوشش میں، امریکہ نے تب سے "واشنگٹن اور صنعا میں متعلقہ حکام کے درمیان جنگ بندی" پر دستخط کیے ہیں جس سے امریکی جہازوں کے خلاف حوثی حملوں کو محدود کیا گیا ہے لیکن اسرائیل کو اس سے باہر رکھا گیا ہے۔

وہی پرانی کہانی

CNN کی سابق بین الاقوامی نامہ نگار اور انٹرنیشنل ایڈ، ریلیف اینڈ سپورٹ نیٹ ورک  کی بانی، اروا ڈیمون کا خیال ہے کہ اسرائیل کے بارے میں مغربی میڈیا کے نقطہ نظر میں موجودہ تبدیلی 2003 کے بعد کی عراق کی کوریج میں ایک مانوس انداز کی یاد  دلاتی  ہے۔

انہوں نے TRT ورلڈ کو بتایا کہ"یہ ہم نےنائن الیون کے بعد دیکھا تھا، جب مغربی میڈیا نے بش انتظامیہ کی  جنگی ٹرین  پر چھلانگ لگاتے ہوئے، عراق پر امریکی قیادت میں حملے پر زیادہ تنقیدی سوال اٹھانا شروع کر دیے تھے  کیونکہ  میڈیا  نے میدان  کے حقائق  اور بیانات  کے ہم آہنگ نہ ہونے کا بذات خود مشاہدہ کر لیا تھا۔"

ان کا کہنا ہے کہ غزہ میں  یہ طرز  بہت سست رفتاری سے آگے بڑھ رہا   ہے، کیونکہ غیر ملکی نامہ نگاروں کو باہر رکھا جا رہا  ہے اور بہت سے  صحافیوں کی ساکھ پر بہت سے ایڈیٹرز سوال کرنے سے ڈرتے ہیں۔

"اسرائیل اور غزہ کے معاملے میں، اس تبدیلی میں زیادہ وقت لگا ہے۔ اسرائیل اس وجہ سے غیر ملکی میڈیا کو غزہ میں آنے کی اجازت نہیں دیتا، اور بدقسمتی سے فلسطینی صحافی جو ناقابل یقین کام کرتے ہیں، کو اب بھی  ان کی ساکھ پر سوالیہ نشانات اٹھانے والے عدسے سے دیکھا جا رہا ہے ۔"

دریافت کیجیے
لوور میوزیم میں تاریخی تزئین و آرائش: "مونا لیزا" کے لئے خصوصی کمرہ
قیدیوں کی زبانی،الاباما جیل کہانی
ہاتشیپسوت کے تاریخی نوادرات
چار سو سال پرانا آشوری بازار
محبت کیا ہے؟
ترک فنکار، زنزیبار کی سمندری معیشت کو فنون کے ذریعے جانبرکر رہے ہیں
داتچہ میں عہدِ عثمانیہ کا غرق شدہ  بحری جہاز  17ویں صدی کی بحری تاریخ پر روشنی ڈال رہاہے
عہدِ عثمانیہ میں رمضان اور حضوری   دروس
ترک ڈرامے دنیا میں ترکیہ کے چہرے کو بدل رہے ہیں
آزادی فلسطین کی حامی وکیل عائشہ نور
ڈنمارک  کا آرکٹک سمندر  میں اپنے وجود  کو مضبوطی دلانے کے لیے 2 بلین ڈالر کی فوجی امداد کا اعلان
بنگلہ دیش کی طرف سے  ہندوستانی سیاست دان کی طرف سے اقوام متحدہ کے امن مشن کے مطالبے کی مذمت
ہیضے نے سوڈان کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے تو جاری جھڑپوں کے دوران 1200 سے زیادہ افراد ہلاک ہو گئے
یوکرین نے مغرب سے جوہری ہتھیار حاصل کیے تو روس 'تمام ہتھیار' استعمال کرے گا: پوتن
آئی سی سی چیف:جنگی جرائم کی عدالت خطرے میں ہے
TRT گلوبل چیک کریں۔ اپنی رائے کا اشتراک کریں!
Contact us