گرفتار ہونے والوں میں سے 857 افراد کو دہشت گردی ایکٹ کے تحت ممنوعہ تنظیم کی حمایت کے الزام میں حراست میں لیا گیا ہے، تو باقی ماندہی کو پولیس پر حملے اور دیگر جرائم کی پاداش میں گرفتار کیا گیا ہے۔
یہ مظاہرے "ڈیفینڈ آور جیوریز" نامی گروپ کی جانب سے پارلیمنٹ کے باہر منعقد کیے گئے تھے جہاں سینکڑوں افراد نے بیٹھ کر پلے کارڈز اٹھائے جن پر فلسطین ایکشن کے حق اور اسرائیلی پالیسیوں کے خلاف نعرے درج تھے۔
پولیس کی جانب سے فوری گرفتاریوں پر تماشائیوں نے "شرم کرو" اور دیگر نعرے بھی لگائے۔
تنظیم پر پابندی کے بعد گزشتہ دو ماہ میں تقریباً 1,600 افراد گرفتار کیے جا چکے ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ پابندی برطانیہ میں آزادی اظہار اور احتجاج کے بنیادی حق پر قدغن ہے۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ نے بھی برطانوی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ انسدادِ دہشت گردی قوانین کا اس طرح استعمال بنیادی آزادیوں کے لیے خطرناک ہے۔ ان کے مطابق دہشت گردی کی تعریف صرف ان اعمال تک محدود ہونی چاہیے جو جان لیوا حملوں یا یرغمال بنانے جیسے سنگین واقعات سے تعلق رکھتے ہوں۔
فلسطین ایکشن نے اس فیصلے کو عدالت میں چیلنج کیا ہے اور 25 ستمبر کو اس کیس کی سماعت متوقع ہے۔ گروپ کی شریک بانی ُہداٰ عموری نے پابندی کو شہری آزادیوں کے لیے تباہ کن قرار دیا۔ اس تنظیم کو کئی عالمی ادبی اور ثقافتی شخصیات کی حمایت بھی حاصل ہے، جن میں آئرش مصنفہ سیلی رونی بھی شامل ہیں۔
اسی دن لندن میں ایک علیحدہ پرو-فلسطین مارچ بھی منعقد ہوا جس میں پولیس کے اندازے کے مطابق تقریباً 20,000 افراد شریک ہوئے۔ یہ مارچ اور احتجاج برطانیہ میں فلسطین کے حق میں بڑھتی ہوئی عوامی یکجہتی اور حکومتی پالیسیوں کے خلاف سخت مخالفت کی عکاسی کرتے ہیں۔