جاپان میں 2024 میں جاپانی النسل آبادی میں 9 لاکھ سے زیادہ کمی ریکارڈ ہوئی ہے جو اس وقت تک کی سب سے بڑی کمی ہے۔
جاپان، مسلسل گرتی شرح پیدائش کے مسئلے سے نمٹنے کے لئے کوششیں کر رہا ہے اور سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ سال یہ شرح 9 لاکھ تک گِر گئی ہے۔
اگرچہ کئی ترقی یافتہ ممالک کم شرح پیدائش کے مسئلے سے دوچار ہیں لیکن جاپان میں، جہاں گذشتہ کئی سالوں سے آبادی کا گراف مسلسل نیچے کی طرف جا رہا ہے،یہ مسئلہ خاص طور پر سنگین شکل اختیار کر گیا ہے ۔
وزیر اعظم شیگیرو اِشیبا نے اس صورتحال کو ایک "خاموش ہنگامی حالت" قرار دیا اور اس رجحان کا رُخ پلٹنے کے لئے زیادہ لچکدار اوقاتِ کار اور مفت ڈے کیئر سہولیات کی فراہمی جیسے خاندان دوست اقدامات کرنے کا وعدہ کیا ہے ۔
سال 2024 میں جاپانی شہریوں کی تعداد 9 لاکھ 8 ہزار 574 نفوس یا پھر 0.75 فیصد کی کمی سے 12 کروڑ 65 لاکھ ہو گئی ہے۔
جاپان وزارت داخلہ کے مطابق یہ کمی 1968 میں سروے کے آغاز سے اب تک کے 16 سالہ عرصے کی بڑی ترین کمی ہے۔
تاہم ملک میں غیر ملکی رہائشیوں کی تعداد 2013 میں تحقیق شروع ہونے کے بعد سے اب تک کی بلند ترین سطح پر دیکھی گئی ہے۔
ملک میں یکم جنوری 2025 تک غیر ملکیوں کی تعداد 36 لاکھ 70 ہزار تھی جو جاپان کی12 کروڑ 43 لاکھ آبادی کا تقریباً تین فیصد ہے ۔
ملک کی مجموعی آبادی 2023 کے مقابلے میں 0.44 فیصد کم ہوئی ہے۔
یہ تازہ ترین اعداد و شمار اس وقت سامنے آئے ہیں جب حکومت مسلسل کم ہوتی شرح پیدائش میں اضافے کی کوشش کر رہی ہے۔ ملک میں مہنگائی اور دیگر مسائل پر رائے دہندگان کی مایوسی نے ایک نئی حزب اختلاف سیاسی جماعت کو پروان چڑھایا ہے جس کا نعرہ ہے "سب سے پہلے جاپانی"۔
یہ پارٹی نقل مکان مخالف بیانات کی وجہ سے مرکزِ توجہ بن رہی ہے۔ پارٹی کا کہنا ہے کہ غیر ملکی، جاپانی شہریوں کے مقابلے میں زیادہ فلاحی فوائد حاصل کر رہے ہیں۔
ملک میں موجود غیر ملکی شہری، عمر رسیدہ آبادی کی وجہ سے پیدا ہونے والی، محنت کی کمی کو پورا کرنے میں مدد کر رہے ہیں اور زیادہ تر پیداوار، سیاحت اور تھوک پرچون کے شعبوں میں بھرتی کئے جا تے ہیں۔
ترک شدہ مکانات
عمر کے لحاظ سے 65 سال یا اس سے زیادہ عمر کے جاپانی شہری کل آبادی کا تقریباً 30 فیصد ہیں اور 15 سے 64 سال کے افراد 60 فیصد ہیں جو پچھلے سال کے مقابلے میں معمولی اضافہ ہے۔
عالمی بینک کے مطابق موناکو کے بعد جاپان دنیا کا دوسرا عمر رسیدہ ترین آبادی والا ملک ہے ۔
جاپان وزارت صحت کے جون میں جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ سال جاپان میں پہلی بار پیدائش کی تعداد 7 لاکھ سے بھی کم ہو گئی ہے۔
2024 میں تیزی سے عمر رسیدہ ہوتی قوم میں 6 لاکھ 86 ہزار 61 بچے پیدا ہوئے۔ یہ تعداد 2023 کے مقابلے میں 41 ہزار 227 نفوس کم اور 1899 میں ریکارڈ شروع ہونے کے بعد سے اب تک کی کم ترین تعداد تھی۔
حکومت کے گذشتہ سال جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق کم ہوتی ہوئی آبادی دیہی آبادیوں کو بھی متاثر کر رہی ہے۔ ملک میں ترک شدہ مکانات کی تعداد گذشتہ دو دہائیوں میں تقریباً 40 لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔
ان میں سے بہت سے مکانات ان لوگوں کی ملکیت ہیں جو بڑے شہروں میں رہتے ہیں اور انہیں اپنے رشتہ داروں سے وراثت میں ملے ہیں لیکن وہ یا تو انہیں مرّمت کرنے کے خواہش مند نہیں ہیں یا پھر اس کی استطاعت نہیں رکھتے۔
واضح رہے کہ دنیا کی سب سے عمر رسیدہ خاتون، جاپانی شہری تومیکو اِتوکا، دسمبر میں 116 سال کی عمر میں انتقال کر گئی تھیں۔
جاپان میں خواتین عام طور پر طویل عمر پاتی ہیں۔ بڑھتی ہوئی عمر رسیدہ آبادی طبی و فلاحی اخراجات میں اضافے کا باعث بن رہی ہے جبکہ کم ہوتی ہوئی محنت کی قوّت ان اخراجات کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہے۔